افسانہ “لال باغ” کرشن چندرکے افسانوی مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل دوسراافسانہ ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” کملاکر کے جبڑے بڑے مضبوط تھے۔ اتنے مضبوط کہ رخسار کی ہڈی اور جبڑوں کے درمیان کے گوشت میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” کملا کر نے مسکرا کر اخبار کو تہہ کر کے پان والے کو دے دیا اور اس سے کہا۔ ایک بنڈل شیرمارکہ بیڑی کا دے دو اور یہ ہے تمہاری کو کین!” ۔
نچوڑ
کرشن چندر کے افسانوی مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل افسانے کا مشترکہ موضوع فساد ہے، چناں چہ اس افسانے میں بمبئی میں برپا فساد کو بیان کیا گیا ہے ، اورایک فساد میں اندرونی طور پر ہونے والے واقعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ جو کچھ نظر آتا ہے اس کے علاوہ مکمل ایک تنظیمی سرگرمی کارفرماہوتی ہے، جیسے اس واقعہ میں لال باغ کے دادا “کملاکر” کو مسلمانوں کو مارنے کے لیے سیٹھوں کی جانب سے روپے ملتا اور اس کے گرگےپچاس روپے کے لیے جان لیتے ہیں اور پچاس روپے کے لیے لال باغ کی تخلیق “شیدو ” کو بھی قتل کردیتے ہیں۔فساد سے پہلے کرشن چندر نے کملاکر کے دادا بننے کے مکمل عمل کوبیان کیا ہے۔
خلاصہ
کرشن چندر نے سب سے پہلے پچاس سالہ کملاکر جو تیس سے کم کا دکھتا ہے اس کی جسمانی ساخت کو بیان کیا ہے ، وہ لال باغ کا معروف دادا تھااوریہ داداگیری اس کے پچاس سال کی محنت کا نتیجہ تھا، وہ بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ کارادر سے بمبئی آیا تھا، وہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ مل کر چھوٹے موٹے غلط کام کرتا رہا پھر کسی نے جیب کترنے کا ہنر سیکھادیاجس کی وجہ سے اسے تین چار بار جیل جانا پڑا، پہلی بار اس کو ریفارمیٹری اسکول بھیجا گیاجہاں اس کو گاؤں کی یاد آئی لیکن دوسری بار وہ جب جیل گیا تو اس کو بمبئی کی گلیاں وغیرہ اور خاص طورپر فٹ بال کا میدان یاد آیاجہاں جیب کترنا آسان ہے، اس کے علاوہ سیاسی جلسوں اور ریلوے اسٹیشن اس کے لیے مناسب جگہ ہے لیکن کملاکرتیسری بار جب جیل آیا تو اس پیشہ سے اکتا چکا تھا اب کچھ نیا کرنے کا سوچ رہا تھا ، وہ اس باربہت چوکنا ہوکر حالات کا جائزہ لیا دوسرے جرائم پیشہ قیدیوں سے راہ و رسم بڑھائے تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ چوری بھی کوئی پیشہ ہےکرنا ہی ہےتو کوئی بڑاکاروبار کریں جیسے لڑکیوں کی خریدوفروخت، افیم، بھنگ کی درآمد، شراب کی بھٹی، کوکین سازی وغیرہ
چناں چہ اس باروہ جیل سے باہرآکر افیم اور چرس کی درآمدکا دھندا شروع کیا پھر دو چار بڑے بڑے سیٹھوں سے مل کا اپنی بھٹی رکھ لی اوربڑے پیمانے پر تجارت کرنے لگا۔اب وہ پچاس سال کا ہے اب وہ خوش حال ہے سب اس عزت کرتےہیں
اب یہاں سے حالیہ صورتِ حال بیان کیاہے کہ آج وہ کھانا کھا کر گھر سے نکلاتو اپنے بیٹے راؤ کو مسلمان لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کیا اور تیزاب کی بوتل اپنے چہیتے نائب شنکر کو دی اور اپنے گرگوں کے ساتھ لال باغ کے بڑے بازار میں گیا۔جہاں کل رات بہت گڑبر تھی، گو بمبئی میں ہندو مسلم فساد ایک سال سے جاری تھا۔ لیکن کل رات سے جھگڑا بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ فساد سے خوش تھاکیوں کہ اس کا کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ تبھی شنکر نے کان میں کہاکہ رات کو چار مسلے گرائے۔کملاکر نے اس کی پیٹھ ٹھونک کر کہاکون کون ہیں؟شنکر نے کہاکہ ابھی لاش نہیں اٹھوئی ہے چل کر دیکھتے ہیں۔
پہلی لاش وکٹوریہ مل کی تنگ گلی میں غلاظت جمع کرنے کی جگہ ایک لڑکے کی تھی جس کے ہاتھ میں تیل کی شیشی تھی،دوسری لاش پریل کے جنوب میں کاردار اسٹوڈیو سے آگے ڈاک یارڈ کے راستے پر ایک گڑھے میں بڈھے کی۔اور دو لاشیں ہسپتال کے پیچھے مزدوروں کے جھونپڑے میں پڑی تھیں ۔
دوسری لاش لال بریلی کے رہنے والے شیدو کی تھی جو لال باغ میں تیس سال سے مونگ پھلی بیچتا تھا، وہ مسلمانوں کے کہنے پر بھی لال باغ نہیں چھوڑا تھا ۔ اس کا ماننا تھا کہ وہ اپنے ہندوبھائیوں میں ہےاور کملاکر نے بھی اس سے کہا تھا کہ کوئی تمہارا بال بیکا نہ کرے گا۔ چناں چہ اس کی لاش دیکھ کر کملاکر اپنے گرگ بورکر سے کہا کہ اس کو کیوں مار دیا تو جواب ملا کہ پچاس روپے کی ضرورت تھی اور یہاں اس کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں بچا تھا تو اس کو مار دیا۔یہ سن کر وہ کچھ دیر کھویا رہا اور پچاس روپے نکال کر اس کو دیئے۔
دوسری اور تیسری لاش کشمیری جوڑے کی تھی جو اپنے کسی رشتے دارسے ملنے آئے تھےلیکن کملاکر کے گرگوں نے مالکِ حقیقی سے ملا دیا۔کملاکر نے دھورت سنگھ کو دونوں کے بدلے میں پچاس پاس یعنی سو کے نوٹ دیئے اور لاش کو ٹھکانے لگانے کو کہا۔
دوسرے دن اخبار میں لکھا تھا۔”آج بمبئی میں بالکل امن رہا۔ اگری پاڑہ۔ گول پیٹھا۔ ڈونگری۔ کالبا دیوی۔ بھنڈی بازار کہیں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ صرف لال باغ میں چاقوزنی کی چار وارداتیں ہوئی ،باقی سب جگہ امن ہے۔
کملاکر یہ خبر پڑھ کر مسکرایا اور تہہ کرکے پان والے کو دے دیا اور اس سے کہا۔ ایک بنڈل شیرمارکہ بیڑی کا دے دو اور یہ ہے تمہاری کو کین!
افسانہ کے کردار
کملاکر (لال باغ کا دادا)
راؤ (کملاکر کاچھوٹا بیٹا)
شنکر (کملاکر کا چہیتا اور نائب)
صورت سنگھ (کملاکر کے گرگ)
دھورت سنگھ(کملاکر کے گرگ)
بورکر(کملاکر کے گرگ)
بھگومل بگوانی (سیاسی لیڈر)
باجپئی(سیاسی لیڈر)
شید/شیدو (بریلی کا رہنے والا)
مارواڑی سوداگر
اہم نکات
کملا کر کی عمر پچاس کے قریب ہوتے ہوئےبھی دیکھنے میں وہ تیس کے اوپر نہیں معلوم ہوتی۔
کملا کر لال باغ کا معروف دادا تھا۔
بچپن میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کارادر سے بمبئی آیا تھا۔ یہاں اس کے ماں باپ وکٹوریہ مل میں نوکر ہو گئے تھے
جیب کترنے کے لئے تین جگہیں سب سے عمدہ ہیں۔ ایک تو کھیل کا میدان ، دوسری سیاسی جلسہ اور تیسری جگہ ریلوے اسٹیشن۔
تیسری بار تو کملا کر نے عہد کر لیا کہ اب وہ جیب کترنے کا دھندا نہیں کرے گا۔ تیسری بار جیل جانے کے بعد اس نے افیم اور چرس کی در آمد کا دھندا کیا
اب اس کی عمر پچاس برس کی ہو گئی تھی۔ اس کا اپنا جوا خانہ تھا۔ شراب کی بھٹی تھی۔ افیم کا کاروبار تھا۔ ایک قحبہ خانہ تھا۔ ایک اپنا گھر تھا۔ موٹر تھی، بیوی تھی، چار بچے تھے۔ اس نے اپنے گاؤں میں اپنا گھر اینٹوں کا بنوایا تھا اور وہاں زمین بھی مول لی تھی۔
بمبئی میں ہندو مسلم فساد ایک سال سے جاری تھا۔
شنکر نے کملا کر کے کان میں کہا۔ رات کو چار مسلے گرائے۔
پہلی لاش وکٹوریہ مل کی تنگ گلی میں غلاظت جمع کرنے کی جگہ ایک لڑکے کی لاش جس کے ہاتھ میں تیل کی شیشی تھی،دوسری لاش پریل کے جنوب میں کاردار اسٹوڈیو کےسے آگے ڈاک یارڈ کے راستے پر ایک گڑھے میں بڈھے کی۔اور دو لاشیں ہسپتال کے پیچھے مزدوروں کے جھونپڑے میں پڑی تھیں ۔
شیدو بریلی کا رہنے والا تھا۔ بمبئی کے لال باغ میں تیس برس سے مونگ پھلی بیچتا تھا۔
فساد میں ایک مسلمان کو مارنے کے لیے کملاکر پچاس روپے دیتا
اہم اقتباس
بمبئی ایک کاروباری شہر ہے۔ صنعتی مرکز ہے۔ یہاں ملیں، فیکٹریاں تجارتی گودام سب کچھ موجود ہیں۔ لیکن لوہا، کاٹن، تیل، کاغذ اور اناج کے کالے بیوپار سے بڑھ کر بھی جو صنعت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے وہ جرائم پیشہ لوگوں کا کاروبار ہے ۔
دادا گیری آسان کام نہیں اور کرنے سے نہیں آتی۔ ہندوستان اور پاکستان کا گورنر جنرل بننا آسان ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔دادا بننا آساں نہیں۔
اسے چھوٹے چھوٹے مرغی کے چوزے یاد آئے جن سے وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھیلا کرتا تھا۔ اسے وہ ندی کنارے جام کا پیر یاد آیا جہاں وہ حسین اور پری جمال گلہریوں کی اچھل کود سے محظوظ ہوا کرتا تھا۔
وہ فٹ بال کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا۔ یہ گول گول پھکنا جو دھماکے سے ہوا میں اڑتا ہے اور زمین پر اچھل کر پھر فضا میں پرواز کرتا ہے۔ دھم دھم ادھر دهم دهم ادھر۔ ۔۔۔۔(وہ)چاہتا ایک ایسی کک لگائے کہ فٹ بال اوپر فضا میں دور میلوں تک اوپر چلا جائے۔ حتی کہ کسی کو نظر بھی نہ آئے۔ اور سب لوگ اسے حیرت سے تکنے لگیں۔
نفرت کے جذبات لوگ بڑی خوشی سے قبول کرتے تھے۔ محبت، رواداری، آشتی، صلح، امن کے جذبات لوگوں کو پسند نہ آتے تھے۔
تیسری بار جب جیل میں آیا تو خوب چوکنا ہو کے، جیسے وہ کسی اسکول میں داخل ہو رہا ہو۔ اس نے دوسرے جرائم پیشہ قیدیوں سے راہ و رسم پیدا کی اور اب اسے معلوم ہوا کہ اب تک وہ بسم اللہ کے گنبدی ہی میں بند تھا۔ بمبئی میں تو ایک سے ایک اونچا کاروبار پڑا ہے۔ جس میں لاکھوں روپے کا روز ہیر پھیر ہوتا ہے۔
یہ جیب کترنا بھی کوئی کاروبار ہے۔ آدمی کام کرے تو لڑکیوں کے بیچنے، لانے، لوانے، بچوانے کا کام کرے۔ احمدآباد سے چرس، افیم، بھنگ کی در آمد کرے۔ شراب کی بھٹی لگائے، کلپان میں بیٹھ کر کوکین سازی کرے۔ پھر چور بازار کے سودے ہیں۔ قمار خانے ہیں۔
جب امن ہو جرم کا کاروبار ذرا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ پولیس بھی زیادہ ہوشیار ہو جاتی ہے اور فساد میں کسی کو یہ ہوش نہیں ہو تا کہ کل کا راشن کہاں سے آئے گا۔ چرس اور افیون کے کھیپ کون پکڑ سکتا ہے۔
یہ شریف لڑکے ملوں میں ذلیل مزدوری کرتے اور صبح و شام رگڑتے ہوئے۔ اب تو چین تھا اور اچھا کھانا تھا اور جیب میں اعلیٰ سگریٹ اور رات کو شراب اور لڑکیاں اور لوگوں کے دلوں میں وہ ڈر جیسے ہٹلر کے صاحبزادے چلے جا رہے ہوں۔
اس بڈھے کی زندگی ایک ایسی پرانی ہسٹری بوسیدہ کتاب تھی جس کے ہر صفحے پر بھوک، بے کاری،بیماری، قحط کی ہولناکیاں ثبت تھیں۔ یہ کتاب کیچڑ میں پڑی تھی۔ ایک گڑھے میں یہ زندگی جو ایک گڑھے میں شروع ہوئی اور ایک گڑھے میں ختم ہو گئی۔ یہ اکڑے اکڑے پاؤں جو ہمیشہ کیچڑ میں چلتے رہے۔ یہ ہونٹ جنہیں کبھی دو وقت کھانا نہیں ملا۔ یہ کان جنہوں نے کبھی اقبال کا نغمہ نہیں سنا۔ یہ آنکھیں جو سدا خوبصورتی سے آشنا رہیں۔ کیوں ایسی مسلسل موت کو لوگ زندگی کہتے ہیں۔
ہم شہد، زعفران اور سپید برف کے دیس سے آئے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں آج سیب کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور مخملیں سبزے کا فرش ہے اور آڑوں کے سرخ پھولوں کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ اور ناشپاتیوں کی شاخوں میں سبز چکنی چکنی پتیاں پھوٹ رہی ہیں اور جہلم کا شفاف پانی نیلے پتھروں سے پھسلتا ہوا گنگنا رہا ہے۔ ہمیں ہماری زندگیاں واپس دے دو۔ ہم یہاں نہیں رہیں گے۔ ہمارا دیش کشمیر ہے۔
اس کے ماتھے پر کشمیر کی صبح رو رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر پرائے دیس کی اوس تھی اور اس کی نیلی آنکھوں کے جھرنے خاموش تھے اور اس کا ہات اپنے خاوند کے ہاتھ میں تھا
کشمیر کا شہزادہ اپنے صدیوں کے چیتھڑوں میں لپٹا ہوا اپنی غربت اور نکبت اور یاس کے باوجود اس قتل گاہ کے خونیں تخت پر ایک عجب تمکنت سے سو رہا تھا۔
ظالمو! تم نے مسلمانوں کو نہیں مارا ہے۔ تم نے انسان کو مارا ہے۔ تم نے ہندوستان کو مارا ہے۔ تم نے تاج محل فتح پوری سیکری اور شالا مار کو قتل کیا ہے۔ یہ اشوک کی لاش ہے۔ یہ اکبر کا کفن ہے۔
یہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا مردہ ہے۔ یہ مرد سیاست دان ہندو اور مسلمان یہ سائنتی جاگیر دار۔ یہ فریبی سرمایہ دار کس کے خون سے اور کس کی بربادی سے اپنی حکومتوں کی تعمیر کر رہے ہیں۔
شام کے اخبار ہند میں کملا کر نے پڑھا۔ آج بمبئی میں بالکل امن رہا۔ اگری پاڑہ۔ گول پیٹھا۔ ڈونگری۔ کالبا دیوی۔ بھنڈی بازار کہیں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ صرف لال باغ میں چاقوزنی کی چار وارداتیں ہوئی ،باقی سب جگہ امن ہے۔