افسانہ “امرتسر آزادی سے پہلے” کرشن چندرکے افسانوی مجموعہ “ہم وحشی ہیں” میں شامل تیسرا افسانہ ہے۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” جلیانوالہ باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع میں ہندو بھی تھے سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” آج انسانیت کا سر غرور سے بلند ہے، تمہاری روحوں پر ہزاروں لاکھوں سلام….” ۔
نچوڑ
کرشن چندر نے اس افسانے میں جلیانوالہ باغ کے واقعات کا نقشہ کھینچاہے اور اس وقت کی منظر کشی کی ہے اس کے بعد اس باغ میں درپیش صدیق اور اوم پرکاش کا واقعہ بیان کیا اوراخیر میں چار عورتوں کی قربانی کو بیان کیاہے۔
خلاصہ
کرشن چندر نے سب سے پہلے جلیانوالہ باغ کی منظر کشی کی ہے وہاں ہر مذہب و ملت کے لوگ صرف ایک جذبہ آزادی کو لے کر جمع ہوئے تھے، اس جذبہ کو ختم کرنے کے لیے انگریزوں کی طرف ان پر گولی کی بارش کی گئی لیکن ان کی آپسی محبت ختم نہ ہوئی بلکہ مزید بڑھی اور اسی کا نمونہ صدیق اور اوم پرکاش کی محبت کا جذبہ ہے۔
یہ دونوں نوجوان کٹرہ فتح پور کے باشندے تھے ہمساے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دوستی تو نہ تھی لیکن شناسائی تھی وہ دونوں اسی آزادی کے جذبہ کو لے کر قریب بیٹھے اپنے لیڈروں کا خطاب سن رہے تھے تب ہی گولی چلی اور پہلے اوم پرکاش کے کندھے کے پاس لگی اور وہ گرگیا اور صدیق اسے دیکھنے کے لیے جھکا تو ایک گولی اس کی ٹانگ کو چھیدتی ہوئی پار ہوگئی۔ وہ اوم پرکاش پر اور جھک کر اپنے جسم کو اس کے لیے ڈھال بنا لیاپھر وہ دونوں گولیوں کی بارش میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئےدیوار کے پاس پہنچے، صدیق دیوار سے لگ کر جانور کی طرح چاروں پنجے زمین پر ٹیک دیا جس کے سہارے اوم پرکاش دیوار پھلانگ گیااور پھر صدیق بھی جست لگا کردیوارکی دوسری طرف پہنچا تبھی ایک دوسری گولی اس کی دوسری ٹانگ کے پار ہوگئی۔صدیق نے پرکاش سے پوچھا:”تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی پرکاش۔” لیکن وہ مرچکا تھا، صدیق اس کی ہیرے کی انگوٹھی اور اس کے جیب سے دو ہزار کے نوٹ لے کر چل دینے کے بجائے پرکاش کو اٹھا کر کٹرہ فتح پور پہنچ کر شہید کی لاش کو رکھا اور خود بھی چل بسا شہر والوں نے سگے بھائی کی طرح دونوں کا جنازہ اٹھایا۔
اگلی کہانی چاربہادر جانباز خواتین کی ہے جو کوچہ رام داس سبزی خریدنے آئی تھیں اور کرفیو لگنے والی تھی اس لیے وہ جلدی سے سودا سلف لے کر بیگم کے کہنے پر ایک گلی سے نکلیں جہاں گوروں کا پہرا تھا، فوجیوں نے یونین جیک کو سلام کرنے کو کہا تو وہ بوکھلاکر سلام کردیں۔ پھر فوجی نے کہا کہ گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی گلی پارکرلو، تو زینب نے کہا یہ تو ہم سے نہ ہوگا اور شام کور نے تن کر کہاہم تو یوں جائیں گے دیکھیں کون روکتا ہے یہ کہہ کر وہ چلی پارو نے روکا بھی ، اور فوجی نے کہا ہم گولی مارے گا۔ وہ کسی کی سنے بغیر سیدھی جاتی رہی تب ہی فوجی کی گولی کھاکر گرگئی۔تو اچانک زینب اور بیگم ایک دوسرے کو دیکھ کر گھٹنوں کے بل گرگئیں۔ یہ دیکھ کر گورا خوش ہوا، لیکن تبھی ہی وہ دونوں سیدھی ہوکر گلی پار کرنے لگیں تب گورا غصہ ہوکر ان کو بھی گولی کا نشانہ بنایا، اب پارو جو دل کی کمزور تھی لیکن اپنی سہیلیوں کا ساتھ دی اور روتے ہوئے وہ بھی چلی اور سب سے آگے جاکر گورے کی گولی کا نشانہ بنی اس طرح ان بہادر عورتوں نے ہندوستان کا سر اونچا کر دیا۔
افسانہ کے کردار
صدیق (کچا چمڑہ بیچنے والے کا بیٹا)
اوم پرکاش (بینکر کا لڑکا)
پارو
زینب
بیگم
شام کور
اہم نکات
جلیانوالا باغ ہندوستانیوں سے بھرا ہوا تھا۔
جلیانوالہ باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور گولی بھی ہزاروں پر چلی، تینوں طرف سے راستہ بند تھا اور چوتھی طرف ایک طرف چھوٹا سا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ جو زندگی سے موت کو جاتا تھا۔ ہزاروں نے خوشی خوشی جام شہادت پیا۔
صدیق کٹرہ فتح خاں میں رہتا تھا۔ کٹرہ فتخ خاں میں اوم پرکاش بھی رہتا تھا جو امرتسر کے ایک مشہور بیوپاری کا بیٹا تھا۔ صدیق اسے اور اوم پرکاش صدیق کو بچپن سے جانتا تھا۔ وہ دونوں دوست نہ تھے کیونکہ صدیق کا باپ کچا چمڑہ بیچتا تھا اور غریب تھا۔ اور اوم پرکاش کا باپ بینکر تھا اور امیر تھا۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
پارو جو اپنی سہیلیوں میں سب سے زیادہ کمزور اور بزدل تھی سب سے آگے جا کر مرگئی۔
پارو، زینب ،بیگم، شام کور۔
اہم اقتباس
صورتیں الگ تھیں،مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں۔ مذہب الگ تھے۔ لیکن آج یہ سب لوگ ۔۔۔۔۔۔ایک ہی دل لے کے آئے تھے۔ اس دل میں ایک ہی جذبہ تھا اور اس جذبے کی تیز اور تند آنچ نے مختلف تمدن اور سماج ایک کر دیئے تھے۔
پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے رخساروں میں تھی۔
پانچوں دریاؤں کی سرزمین میں ایک چھٹے دریا کا اضافہ کیا تھا۔ یہ ان کے ملے جلے خون کا دریا تھا۔ یہ ان کے لہو کی طوفانی ندی تھی۔ جو اپنی امڈتی ہوئی لہروں کو لئے ہوئے اٹھی اور سامراجی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی۔
اس وسیع آسمان تلے کسی نے آج تک مختلف تہذیبوں مختلف مذہبوں اور مختلف مزاجوں کو ایک ہی جذبے کی خاطر یوں مدغم ہوتے نہ دیکھا تھا
ہیرے کی انگوٹھی نے بہت کچھ کہا سنا۔ لوگوں نے بہت کچھ سمجھایا۔ وہ تہذیب جو مختلف تھی۔ وہ مذہب جو الگ تھا۔ وہ سوچ جو بیگانہ تھا۔ اس نے طنز و تشنیع سے بھی کام لیا۔ لیکن اس نے کسی کی نہ سنی اور اپنے بہتے ہوئے لہو اور اپنی نکلتی ہوئی زندگی کی فریاد بھی نہ سنی اور اپنے راستے پر چلتا گیا۔
بیگم نے کہا۔ آؤ اس گلی سے نکل چلیں۔ وقت سے پہنچ جائیں گی۔
پارو نے کہا۔ پر وہاں تو پہرہ ہے گوروں کا۔
شام کور بولی۔ اور گوروں کا کوئی بھروسہ نہیں۔
زینب نے کہا۔ وہ عورتوں کو کچھ نہ کہیں گے۔ ہم گھونگھٹ کاڑھے نکل جائیں گی۔ جلدی سے چلو۔
اب مجھے بھی مرنا ہو گا۔ یہ کیا مصیبت ہے میرے پتی دیو۔ میرے بچو۔ میرے ماں جی۔ میرے پتا جی۔ میرے ویرو، مجھے شما کرنا۔ آج بھی مجھے مرنا ہو گا۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔ پھر مجھے بھی مرنا ہو گا۔ میں اپنی بہنوں کا ساتھ نہیں چھوڑسکتی۔
گھر کی عورتیں پردے دار خواتین، عفت ماب بیبیاں اپنے سینوں میں اپنے خاوند کا پیار اور اپنے بچوں کی ممتا کا دودھ لئے ظلم کی اندھیری گلی سے گزر گئیں۔ ان کے جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے لیکن ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اس وقت کسی کی محبت نے پکارا ہو گا۔ کسی نے ننھے بازوؤں کا بلاوا آیا ہو گا۔ کسی کی سیانی مسکراہٹ دکھائی دی ہو گی۔ لیکن ان کی روحوں نے کہا۔ نہیں آج تمہیں جھکنا نہیں ہے،
آج صدیوں کے بعد وہ لمحہ آیا ہے۔ جب سارا ہندوستان جاگ اٹھا ہے اور سیدھا تن کر اس گلی سے گزر رہا ہے۔ سراٹھائے بڑھ رہا ہے۔
کس نے کہا۔ اس ملک سے سیتا مرگئی؟ کس نے کہا اب اس دیس میں ستی ساوتری پیدا نہیں ہوتی؟….. آج اس گلی کا ذرہ ذرہ کسی کے قدوسی لہو سے روشن ہے ۔
آج تمہارا دیس فخر سے سر اٹھائےاس گلی سے گزر رہا ہے۔ آج آزادی کا اونچا جھنڈا اس گلی سے گزر رہا ہے۔ آج تمہارے دیس تمہاری تہذیب تمہارے مذہب کی قابل احترام روائتیں زندہ ہو گئی ہیں۔ آج انسانیت کا سر غرور سے بلند ہے، تمہاری روحوں پر ہزاروں لاکھوں سلام….