الطاف حسین حالی : حیات و خدمات

الطاف حسین حالی

حیات و خدمات

نام: الطاف حسین حالی

پیدائش:1253 ھ بمطابق 1837ء محلہ انصار ، پانی پت

خاندان: ان کی والدہ سیّدانی تھیں اور والد کا شجرہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ملتاہے، ان کے ایک صاحب زادےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خراسان پہنچ کر ہرات کو اپنا مستقل مسکن بنایا، اس خاندان کی نویں پشت میں شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری کی بزرگی کا ہرطرف چرچا تھا،اور پیرہرات سے ملقب تھے، 675ھ بمطابق 1276ء میں خواجہ عبداللہ انصاری کی اٹھارہویں پشت میں خواجہ ملک علی اپنے دو بیٹوں کے ساتھ غیاث الدین بلبن کے عہد میں ہندوستان پہنچے۔ وہ ان کے علم و فضل سے متاثر ہوکر انھیں پانی پت میں زمین و جائداد بخشااور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلیے۔ خواجہ ملک علی کی پندرہویں پشت میں حالی کی پیدائش ہوئی۔

والد: خواجہ ایزد بخش بن خواجہ بو علی بخش بن خواجہ محمد بخش( انگریز سرکار کے سررشتہ پرمٹ میں ملازم تھے)حالی ابھی نو سال کے تھے کہ وہ اپنی چالیس سال کی عمر کو مکمل کرکے اس دنیا کو خیرآبادکہہ چلے، اس کے بعد ان کے بڑے بھائی خواجہ امداد حسین نے ان کی کفالت کی۔

تعلیم: ساڑھے چاربرس کی عمرمیں بسم اللہ خوانی ہوئی، پانی پت ہی میں حافظ ممتاز حسین کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کیے اور حفظ مکمل کیے، معروف شاعر میرممنون دہلوی کے بھتیجے اور داماد جعفر علی سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔عربی صرف و نحو کی ابتدائی کتا بیں حاجی ابراہیم حسین سے پڑھیں لیکن اس کے بعد مستقل تعلیم حاصل نہ کرسکے۔پھر شادی کے بعد ان کی بیوی میکے گئی ہوئی تھیں تو وہ چپکےسے دلی آگئے یہاں جامع مسجد کے حسین بخش کے مدرسہ میں داخل ہوگئے جہاں مولوی نوازش علی درس دیتے تھے، اور دلی میں قیام کے دوران مولوی فیض حسن، مولوی امیراحمد اور شمس العلما میاں نذیر حسین سے بھی فیض حاصل کیا۔

تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے عربی میں ایک چھوٹی سے کتاب لکھی جس میں ایک منطقی مسئلہ پر مولوی صدیق حسن خاں بہادر کی تائید میں تھی۔

شاعری: دلی کے قیام (1854-1855)کے دوران فارسی اور اردو کے اشعار کی وضاحت اور معانی دریافت کرنے کے لیے غالب کی خدمت میں حاضر ہوئے، غالب سے چند فارسی قصائد بھی پڑھے، اس زمانے میں انھیں شاعری کا شوق ہوا۔ اپناتخلص ‘خستہ’ رکھا، مگر غالب کے مشورے سے تخلص بدل کر ‘حالی’ کردیا، لیکن مالک رام کا کہنا ہے کہ انہوں نے شیفتہ کی صحبت کی وجہ سے اپنا تخلص تبدیل کیا۔حالی نے اپنی غزلیں اصلاح کے لیے غالب کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے پسند کیا اور فرمایا "اگرچہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا۔ مگر تمہاری نسبت میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہوگے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کروگے۔”

شادی: سترہ سال کی عمر میں ان کے ماموں میر باقر علی کی صاحب زادی اسلام النساء سے شادی ہوئی۔

اولاد: حالی کے یہاں چار لڑکے اور دولڑکیا ں ہوئیں لیکن دو لڑکے اور ایک لڑکی بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بڑے صاحب زادے؛خواجہ اخلاق حسن ، سب سے چھوٹے صاحب زادے ؛ خواجہ سجاد حسین ، اور سب سے چھوٹی صاحب زادی عنایت فاطمہ ہیں

دہلی کا پہلا سفر: شادی کے بعد چپکے سے حصول علم کے لیے دلی چلے لیکن ان کی دلی میں موجودگی کی خبر پانی پت پہنچی تو بڑے بھائی اور کئی دوسرے عزیز دلّی آئے اور ان کو گھر واپس چلنے پر مجبور کیا تو بادلِ ناخواستہ تعلیم چھوڑ کر 1855ء میں پانی پت واپس چلے گئے۔

حالات و ملازمت: سترہ سال کی عمر میں شادی کے بعد سسرال کی آسودگی سے مطمئن ہوکر چپکے سے حصولِ تعلیم کے لیے دلی تشریف لائے اور ماہر اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے رہے ، پھر مجبوراً گھر واپسی ہوئی، لیکن یہاں بھی مطالعہ میں مصروف رہے تو لوگوں نے فکرِ معاش پر اصرار کیا تو مجبوراً تعلیم چھوڑ کر 1856ء میں تلاشِ معاش کے لیے نکلےاور حصار میں انھیں تھوڑی سی تنخواہ پر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جگہ مل گئی۔ابھی ایک برس ہوا تھا کہ 1857ء کا انقلاب برپا ہوا اور سخت مصائب کا سامنا کرتے ہوئے وہ حِصار سے پانی پت پہنچے ،یہاں انہوں تقریباً چاربرس قیام کیااور اس دوران میں وہاں کے مشہور فضلا مولوی عبدالرحمٰن، مولوی محب اللہ اور مولوی قلندر علی سے منطق، فلسفہ، حدیث، تفسیروغیرہ کا علم حاصل کرتے رہے۔ اس درمیان ملازمت کے متلاشی رہے لیکن نہ ملنے پر بالآخر 1861 میں دوبارہ دلی کے سفرپر روانہ ہوئے۔یہاں پہنچ کر دوسال تک ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہےلیکن انہیں کامیابی نہ ملی 1863ء میں ایک دن نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ سے ملاقات ہوئی وہ جہانگیر آباد کے رئیس نواب تھے، انہوں نے اپنے ساتھ رہنے کی پیش کش کی تو حالی نے قبول کرلیا اور سات آٹھ سال تک جہانگیرآباد ضلع بلندشہر میں رہےلیکن اس دوران غالب سے بھی ملتے اور اپنے کلام کی اصلاح لیا کرتے۔

سن1286ھ بمطابق 1869ء میں غالب اور شیفتہ کا انتقال ہوگیا جس سے حالی کافی رنجیدہ ہوئے اور پھر روزگار کامسئلہ آکھڑا ہوا، وہ جہانگیر آباد سے دلی آگیے اور 1872ء تک دلی میں ہی رہے،1872ء میں انھیں لاہور میں پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی جہاں انگریزی سے اُردو میں ترجمہ شدہ کتابوں کی تصحیح عبارت اور نظر ثانی کا کام ان کے ذمے تھا۔چار سال تک وہ یہ کام کرتے رہے جس سے انگریزی ادب سے انسیت سی ہونے لگی اور اپنے ادب کو بھی اس پیرائے میں ڈھالنے کی فکر لاحق ہوئی۔اس دوران رسالہ "اتالیق پنجاب”اور "پنجاب میگزین” کے سب ایڈیٹر کی ذمہ داری بحسن و خوبی نباہی، قیام لاہور ہی کے زمانے میں کرنل ہالرائڈ کے ایما پر 1874ء میں محمد حسین آزاد نے موضوعاتی مشاعرے کا آغاز کیا جس میں انہوں نے چار مثنویاں: برکھارُت، نشاطِ اُمید، انصاف اور حُبِ وطن کے موضوعات پر لکھیں جو جدیداردوشاعری کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

انجمن پنجاب کے پہلے موضوعاتی مشاعرے منعقدہ 30مئی 1874میں برکھارت، تیسرے منعقدہ 3اگست 1874ء میں نشاطِ امید، چوتھے منعقدہ یکم ستمبر 1874ء میں حبِ وطن اور چھٹے منعقدہ 14 نومبر 1874ء میں مناظرہ رحم و انصاف پڑھی۔

اسی دوران سرسید سے غائبانہ شناسائی ہوئی ، چنانچہ یکم محرم 1292ھ بمطابق 1875ء کے تہذیب الاخلاق میں سرسید نے لکھا کہ "مولوی خواجہ الطاف حسین حالیؔ، اسسٹنٹ ٹرانسلیٹر محکمہ ڈائریکٹر پنجاب کی مثنوی نے تو ہمارے دلوں کے حال کو بدل دیا ہے۔ ان کی مثنوی حُبِ وطن اور مثنوی مناظرہ رحم و انصاف درحقیقت ہمارے علم ادب میں ایک کارنامہ ہے”

تہذیب الاخلاق کے ذریعہ وہ ایک دوسرے سے قریب ہوئے۔ قیام لاہور کے زمانے میں حالی ؔ نے عورتوں کی تعلیم کے لیے "مجالس النساء” لکھی جس پر وائسرائے ہند نے اپنے ہاتھ سے چارسو روپے کا انعام دیااور یہ کتاب پنجاب کے مدارسِ نسواں میں برسوں شامل نصاب رہی۔

لاہور کی آب وہوا حالی کو راس نہیں آئی اور جلد از جلد دلی واپس آنا چاہتے تھے بالآخر 1874ء میں انھیں دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرسی مل گئی اور وہ دہلی واپس آگئے(بقول جمیل جالبی)، شہزاد انجم مونوگراف میں لکھتے ہیں 1875ء سے 1889 ء تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔

اسی دوران 1876 ء میں انھوں نے "مسدس مدو جزراسلام” لکھااور کئی مضامین "علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ” اور "تہذیب الاخلاق” میں شائع ہوئے۔ سرسید اس کو پڑھ کر اتنے خوش ہوئے کہ مسدس کو "فنِ شاعری کی تاریخِ جدید قراردیا۔”اور لکھا کہ "بے شک میں اس کامحرک ہوااور اس کو میں اپنے ان اعمالِ حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب خداپوچھے گا تو کیا لایا، میں کہوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوالیا ہوں اور کچھ نہیں۔”

اس بار تقریباً بارہ سال حالی دلّی میں مقیم رہےاور درس تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1884 میں انھوں نے اپنی نظم "مناجاتِ بیوہ”لکھی۔

سن1886ء میں مولانا حالی کے بڑے بھائی خواجہ امداد حسین سخت بیمار ہوئے اور دلی میں ہی 1303ھ بمطابق 1886ء میں وفات پائی ۔

سن 1886ء میں "حیاتِ سعدی” شائع ہوئی اور اسی سال حالی کو دہلی چھوڑ کر اتالیق کی حیثیت سے لاہور جانا پڑاوہاں آٹھ ماہ رہے پھر چند موانع کے سبب جون 1887میں دلی واپس چلے اور 1887ء ہی میں نواب آسمان جاہ وزیرِ اعظم حیدرآبادی، علی گڑھ آئے سرسید نے ان سے حالی کا تعارف کرایا اور نواب نے ریاست حیدرآباد سے 75 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا۔

یہ وظیفہ ملنے لگا تو عربک اسکول سے 1889ء میں علیحدگی اختیار کرلی، اور دہلی چھوڑ کر بیٹے کے بنوائے ہوئے مکان میں اُٹھ آئے ، مگر حسب موقع علی گڑھ اوردوسرے مقامات پر آنے جانے لگے۔

زوائد

سن1891ء میں سرسید کے ساتھ حیدرآباد گئے اور اکتوبر 1891ء میں واپس آگئےقیام حیدرآباد کے دوران وزیراعظم نے ان کا وظیفہ سور وپیے ماہور کردیا۔

سن1893ء میں وہ علی گڑھ آئے اور اپنا دیوان مع "مقدمہ” شائع کرنے کااہتمام کیا ۔ یہ دیوان حالی مطبع انصاری دہلی میں اور سرورق نامی پریس کان پور میں چھپا۔

سن 1894ء میں انھوں نے سرسید کی سوانح لکھنے کا ارادہ کیا۔ وہ اپنے ایک خط مورخہ 20 جون 1894 میں ذکر کرتے ہیں۔”میں ایک مہینے سے سید صاحب کی لائف لکھنے میں نہایت سرگرمی سے مصروف تھا۔”

سن 1895ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں "سیدصاحب کی لائف لکھنی شروع کردی تھی مگر طبیعت کا رنگ دیکھتا ہوں تو اس کا ختم کرنا ایک پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔”

سن1897ء میں "یادگارِ غالب” پہلی بار شائع ہوئی۔

سن27 مارچ 1898ء کو سرسید وفات گئے حالی نے ایک پرسوز مرثیہ لکھا۔

سن23 اگست 1900ء کو ان کی اہلیہ اسلام النسا انتقال کرگئیں

سن12 اگست 1900 کو ایک بھائی محمد علی وفات پاگئے۔

سن1901ء میں حیاتِ جاوید چھپ کر آئی۔

سن1904ء میں شمس العلما کا خطاب ملا۔

سن1905ء میں چندہ جمع کرکے پانی پت میں لائبریری قائم کی۔

دسمبر 1905ء میں نظام دکن کی چالیس سالہ سالگرہ کے جشن میں شرکت کے لیے دعوت نامہ ملا وہاں سے 7 جون 1906ء کو واپس ہوئے۔

اعزاز: حکومتِ ہند نے جون 1904ء میں شمس العلما کا خطاب عطا کیا۔

تصانیف

الف۔ نثر

۔1۔” مولودشریف":۔ 1864ء اور 1870 کے درمیان اردو میں لکھا لیکن وفات کے 9 سال بعد 1923ء میں ان کے بیٹے سجاد حسین نے اسے پہلی بار شائع کیا۔

۔2۔ "تریاق مسموم":۔یہ کتاب غالباً 1867ء میں نو عیسائی عمادالدین کی کتاب "ہدایت المسلمین” کے رد میں لکھی

۔3۔ "مبادی علم جیولوجی":۔ 138 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1883ء میں اسی نام سے شائع ہوئی (یہ کتاب فرانسیسی سے عربی میں ترجمہ شدہ کتاب سے اردو میں ترجمہ کیا)

۔4۔ "اصول فارسی":۔ فارسی زبان کی قواعد اردو زبان میں لکھی۔ لیکن یہ شائع نہ ہوسکی

۔5۔ "مجالس النساء”:۔ حالی نے قیام لاہور کے دوران 1874ء میں عورتوں کی تعلیم کے لیے لکھا۔جس پر کرنل ہالرائڈ نے ایک ایجوکیشنل دربار میں بہ مقام دہلی لارڈ نارتھ بروک (وائسرائے ہند) کے ہاتھ چارسو روپیہ انعام دلوایااور اودھ و پنجاب کے مدارس نسواں میں مدت تک شامل نصاب رہی۔

۔6۔ "حیات سعدی":۔ سیرت نگاری پر 1886ء میں پہلی کتاب شائع ہوکر بہت مقبول ہوئی یہ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔

۔7۔ "سفرنامہ حکیم ناصر خسرو":۔یہ سفرنامہ فارسی زبان ہی میں ایک مقدمہ اور سوانح ناصر خسرو کے ساتھ مرتب کرکے 1882ء میں شائع کرایا۔

۔8۔ "مقدمہ شعرو شاعری":۔ اس کا اصل نام صرف ” مقدمہ” ہے پہلی بار 1893ء میں مطبع انصاری دہلی سے "دیوان حالی ؔ” کے مقدمہ کے طورپر شائع ہوا۔

۔9۔ "یادگارِ غالب":۔ یہ تصنیف 1897ءمیں نامی پریس کان پور سے شائع ہوئی۔

۔10۔ "حیات جاوید": ۔ یہ سرسید کی مفصل سوانح عمری ہے۔ 1893 میں مقدمہ کے بعد لکھنا شروع کیا، 1894 میں پوری توجہ دی، ایک خط میں حالی لکھتے ہیں کہ ” میں اپنی طرف سے کوشش کرنے میں کمی نہیں کی اور چھ برس تک اس کام کے سوا دوسری طرف متوجہ نہیں ہوا”

یہ 1901ء میں نامی پریس کان پور سے چھپ کر شائع ہوئی۔

۔11۔ "مقالات حالی":۔ اس کے دوحصے ہیں، حصہ اول میں 32 مقالات، اور حصہ دوم میں 12 تقریریں اور لیکچر کے علاوہ 27 کتابوں پر حالی کی لکھی ہوئی تقریظیں شامل ہیں۔

۔12۔ "مکتوبات حالی":۔ یہ حالی کے لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ہے جو ان کے بیٹے خواجہ سجاد حسین نے مرتب کرکے 1925ء میں حالی پریس پانی پت سے دو جلدوں میں شائع کیا۔

  • الف۔ نظم

۔1۔ "مجموعہ نظم حالی":۔ پہلی بار 1890ء میں شائع ہوا جس میں "مسدسِ حالی (1879)، مناجات ِ بیوہ(1884)، شکوہِ ہند(1888)، مثنوی حقوقِ اولاد(1888)”شامل نہیں کی گئیں کیوں کہ وہ الگ الگ کئی بار چھپ چکی تھیں۔

۔2۔ "دیوانِ حالی":۔ پہلی بار 1893ء میں مقدمہ کے ساتھ اور اس کے بعد مقدمہ کے بغیر شائع ہوتا رہا۔

۔3۔ "جواہراتِ حالی":۔ حالی کی وفات کے بعد شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے باقیات حالی جمع کرکے 1922 ء میں شائع کیا

۔4۔ "مسدسِ حالیؔ":۔اصل نام” مدو جزر اسلام” ہے، پہلی بار 1879ء میں شائع ہوا۔

بیماری ووفات

جون 1906ء میں حیدرآباد سے واپس آئے ، دیگر بیماریوں کے ساتھ دائیں آنکھ میں پانی اُترنے لگا، مئی 1907ء میں آنکھ بنوانے پٹیالہ گئے۔عمر کے آخری حصے میں اعصاب شل ہوگئے تھے اور مسلسل بیمار رہنے لگے تھے۔ اسی حال میں 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی اور حضرت بوعلی قلندر پانی پتی کی درگاہ کے صحن میں مدفون ہوئے۔

کتابیات

جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو۔ جلد چہارم

یادگارِ حالی: صالحہ عابد

شہزاد انجم۔مونوگراف خواجہ الطاف حسین حالی

نصاب میں شامل الطاف حسین کی غزلیں

نشاطِ امید

برکھا رت

مناجاتِ بیوہ

*****

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!