سعادت حسن منٹو کا افسانہ : ساڑھے تین آنے کا خلاصہ
افسانہ “ساڑھے تین آنے” سعادت حسن منٹو کا افسانوی مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل چوتھا افسانہ ہے، جو 26جولائی 1957ءکو لکھا گیا۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “”میں نے قتل کیوں کیا۔ ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے ، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ “۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” یہ کہ کر رضوی نے کوفی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کو فی ہاؤس سے باہر چلا گیا ۔” ۔
نچوڑ
سعادت حسن منٹو کاافسانہ “ساڑھے تین آنے” کا تعلق جرمیات سے ہے جس میں مکالماتی انداز میں جیل سے مجرم کی اصلاح نہ ہونے کو ثابت کیا ہے، اس کے لیے انہوں نے خاص طور پر رضوی کے توسط سے پھگّو بھنگی کا واقعہ پیش کیا ہے کہ کس طرح ضروریات انسان کو چوری کرنے پر مجبور کرتی ہیں، اور کئی ایسے مجرم ہوتے ہیں جو صرف ضرورت پڑنے پر بقدر ضرورت ہی جرم کرتے ہیں، یعنی جرم بھی ایمانداری سے کرتے ہیں جیسے یہاں پھگّو بھنگی بقدرِ ضرورت ہی چوری کرتا ہے۔
خلاصہ
منٹو صاحب نے اس افسانے کاآغاز دخیل کی گفتگو کے ساتھ کیا ہے، ہوا یہ کہ منٹو اور نصیر ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے اس موضوع پر محو گفتگو تھے کہ “جیل مجرم کی اصلاح نہیں کرسکتی ” کہ یکا یک صدیق رضوی نامی شخص ان دونوں کی گفتگو میں حصّہ لیا، جو لنڈا بازار کے ایک قتل کی واردات سے وابستہ تھا، وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی ہی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچالیا تھا۔
رضوی اپنے تجربات کی بنا پر کہتا ہے کہ جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہوتا ہے۔ بہت الجھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا ۔ خود انسان سے جرم سرزد نہیں ہوتا، حالات سے ہوتا ہے۔ رضوی حوالےکے طورپر ایک فرانسیسی ناولسٹ “وکٹرہیوگو”کی تصنیف کی چندفقرے دہراتا ہے جس کا ترجمہ منٹو صاحب نے ہی کیا تھا”وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کو جرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے ۔ “
رضوی اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے “پھگّو” نامی بھنگی مجرم کا ذکرکرتا ہےجس کو صرف “ساڑھے تین آنے” چرانے پر ایک برس کی سزا ہوئی تھی اور وہ بھی پھگّو کو نصیب نہ ہوسکے تھےکیوں کہ وہ پکڑا جا چکا تھا اور جیل میں مقیّد تھاجب کہ وہ رقم خزانے میں محفوظ تھی نہ معلوم اس سے کس کے پیٹ کی آگ بجھے گی۔
رضوی کہتا ہے کہ میں نے اس سے بڑا ایماندار اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ، یہاں تک کہ پھگّو چوری میں بھی ایماندارٹھہراتھاکیوں کہ اس نے مجبوری میں بقدرِ ضرورت ہی پیسے چرائے تھے اور وہ بھی اس کی اجرت کےپیسے تھے، عدالت کے سامنے بھی اس نے سچ بتایا تھا کہ اس نے چوری کی تھی اور ضرورت کے تحت اس سے پہلے بھی کئی چوریاں کرچکا ہے بھنگی دو دن سے بھوکا تھا تو اس نے کریم درزی کے جیب سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے، جس کے یہاں پھگّو کے دو مہینوں کی تنخواہ پانچ روپیے ٹھہرتی تھی اور وہ گاہکوں کے سلائی کا پیسہ نہ دینے کی وجہ ٹال مٹول کر رہا تھا۔
پھگّو بھنگی نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس سے پہلے اس نے ایک میم کے بٹوئے سے دس روپیے چرائے تھے جس کے جرم میں ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی، اور اس کے بچے کو نمونیا ہونے اور ڈاکٹر کے بہت فیس مانگنے پر ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایاتھا، یہ تمام بتاکر بھنگی ثابت کر رہا تھا کہ مجرم وہ نہیں بلکہ حالات ہیں جو اس پر مجبور کرتے ہیں،اس نے کہا کہ اب تو بیوی بچے بھی نہ رہے اب صرف یہ پیٹ ہے جس کو بھرنے کے لیے وہ مزدوری کرتا ہے لیکن مزدوری نہ ملنے پر مجبور ہوکرچوری کرتا ہے وہ پیشہ ور چور نہیں ہے، یہ سب سننے کے باوجود حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس کی قید با مشقت کی سزا دے دی ۔
رضوی نے پھگّو بھنگی کی ایمانداری ثابت کرنے کے لیے خود اس کے ساتھ پیش آئے ہوئے واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ وہ جیل میں رضوی کے لیے جرجی کے پاس سے بیڑیاں لاکر پوری ایمانداری سے ساری کی ساری بیڑیاں اس کو دے دیتا تھا۔ حالاں کہ اس نے بیڑی کے لیے آٹھ آنے چرا کر دیوارپھاندنے پر اپنے ٹخنےکی ہڈی توڑلی تھی مگرجیل میں جہاں اس کو تمباکو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھاجرجی کی دی ہوئی بیڑیاں پوری ایمانداری سے رضوی کے حوالے کردیتا تھاہاں اس کے بعد رضوی سے ایک بیڑی مانگ لیتا تھا۔
مزید رضوی ایک واقعہ نقل کرتا ہے جس سے ثابت کرتا ہے کہ عدالت ہی نہیں بلکہ عام انسان بھی اس کو عادی چور ہی سمجھتے ہیں چنانچہ سنتری کو رشوت دینے کے لیے رضوی کو دس روپے کی ضرورت پڑی تو اس نے جرجی کو رقعہ لکھ کر پھگّو کے ہاتھ بھیجا تو جرجی نے ایک رقعہ میں دس کا نوٹ رکھ کر بھیجا اوراس میں لکھا تھا” رضوی پیارے دس روپے بھیج تو رہا ہوں، مگرا یک عادی چور کے ہاتھ۔ خدا کرے تمہیں مل جائیں کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جا رہا ہے۔ “
رضوی نے یہ تحریر پڑھی اور پھگّو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور یہ سوچنے لگا کہ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کی وجہ سے ایک برس کی سزاہوئی اوراگر وہ دس روپے چرائے گا تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سزا ملے گی؟
افسانہ کے کردار
منٹو صاحب
صدیق رضوی
نصیر
پھگّو بھنگی، کریم درزی، جرجی
اہم نکات
” پھر اس نے کہا ۔” میرا نام صدیق رضوی ہے ––لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا ، میں اس سے متعلق تھا۔
پھگّو بھنگی کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پرا یک برس کی سزا ہوئی تھی۔ “
مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے –– دو مہینوں کی تنخواہ –– حضو ر اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا۔ اس لئے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی سلائی کے پیسے مارے ہوئےتھے
ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے بٹوے سے نکال لئے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لئے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا
عدالت نے پھگّو کو عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس کی قید با مشقت کی سزا دے دی ۔
اہم اقتباس
مگر حقیقت اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزاربارسنایا ہوا لطیفہ بیان کر رہا ہے ––اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہاجیل خانے موجود ہیں۔ہتھکڑیاں ہیں اور وہ ننگ ِانسانیت بیڑیاں ––میں قانون کا یہ زیور پہن چکا ہوں “
جرم کیا ہے ، سزا کیا ہے ––میں نے اس کے متعلق بہت غورکیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے–– زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہوتا ہے، بہت الجھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا میں نفسیات کا ماہرنہیں ––لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے !!
میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو ––فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا–– شاید کسی اور ملک کا ہو،–– آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گے، جرم اور سزا پہ اس نے کافی لکھا ہے–– مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یا دہیں۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ۔” منٹو صاحب غالبا آپ ہی کا ترجمہ تھا–– کیا تھا ؟ –– وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کو جرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے ۔
منٹو صاحب حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں حکومتیں اعداد شماری کرتی ہیں ،حکومتیں ہرقسم کی شماری کرتی ہیں –– اس سیڑھی کے زینوں کی شمار ی کیوں نہیں کرتیں –– کیا یہ ان کا فرض نہیں –– میں نے قتل کیا –– لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کر کے کیا
سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں –– وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب میرے نزدیک نہیں ہیں ، ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے ۔ میں اس فا صلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہیں۔
“جی ہاں –– صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر–– اور جو اس کو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا–– یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیرمحفوظ ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اُسے مجبور کرے
خدا کی قسم میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا ، ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے ، اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے ، میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا
حضور اب میرا بچہ بھی نہیں ہے، بیوی بھی نہیں ہے –– لیکن حضور افسوس ہے کہ میراپیٹ ہے ، یہ مرجائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہوجائے
قانون کی نگاہوں میں ایما ندار ی کیا چیز ہے ،لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا۔۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایمانداری کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں اور سچ پوچھئے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا ۔ ایک چیز آپ کے لئے اچھی ہوسکتی ہے میرے لئے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے دوسری میں بری –– ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے بال بڑھا نا گناہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں
اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو، ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو –– اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ ۔خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو کیونکہ اور کچھ نہیں توکم ازکم خدا تو ہو۔”
بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے –– بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھانا ہی پڑتا ہے