سعادت حسن منٹو کا افسانہ : رحمتِ خداوندوی کے پھول کا خلاصہ
افسانہ “رحمتِ خداوندی کے پھول” سعادت حسن منٹو کا افسانوی مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل تیسرا افسانہ ہے، جو 25جولائی 1950ءکو لکھا گیا۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے “ ‘زمیندار ‘اخبار میں جب ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کےپھول برستے تھے تو یار دوستوں نے غلام رسول کا نام ڈاکٹر راتھر رکھ دیا تھا ۔“۔
اوراس کا اختتام اس جملے پرہوتا ہے” غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خدا وندی کے پھول برس رہے ہیں ۔” ۔
نچوڑ
اس افسانے میں سعادت حسن نے غلام رسول کو ڈاکٹر رتھر سے تشبیہ دی ہے وہ ڈاکٹرقوت مردمی کا علاج کرتا ہے اور اخبار میں اپنا اشتہار دے کر خوب پیسہ کماتا ہے گویا رحمتِ خداوندی کے پھول برس رہے ہوں، لیکن اخیر میں دھوکہ دہی کے جرم میں گرفتار ہوتا ہےاسی طرح غلام رسول بھی اپنے چالاکی کو استعمال میں لاتاہےلیکن اخیر میں اس کی بیوی بھی اس کا شکار ہوجاتی ہے، جس سے لگتا ہے کہ وہ بھی دھوکہ دہی کے جرم میں گرفتار ہوگیا ہے۔
خلاصہ
اس افسانے میں غلام رسول کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے اس کے دوستوں نے اس کو ڈاکٹر راتھر کا لقب دیا تھااور اس نے بھی اس کو قبول کر لیا تھا، ڈاکٹرراتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا اور اشتہاروں کے ذریعے قوتِ مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔
غلام رسول اپنے والدین کی خواہش پر میڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے کیوں کہ اس کے والد اوراس کو یقین تھا کہ وہ ایک دن بہت بڑا ڈاکٹر بنے گا۔ مگر ایم۔ بی۔ بی۔ ایس میں تین بار فیل ہوتا ہے پھر بھی ان کے یقین متزلزل نہیں ہوتے ہیں۔
غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھرایک سادہ لوح تھا لیکن شراب کا عادی تھا اور اکیلا پینا چاہتا تھا۔اس کے والد کی طرف سے 200 روپیے ماہوار ملا کرتے تھے وہ الگ ایک مکان میں رہتا تھا جس کا کرایہ 20 روپیے ماہوار تھا، خرچہ آرام سے چل جاتا تھا لیکن پریشانی اس وقت بڑھی جب اس کے دوستوں کواس کی پینے کے ٹھکانے کا پتہ لگ گیا، وہ سب روزانہ شام سات بجے “سیوائے ہار”پہنچ جاتے اور خوب تعریف کرکے جیب خالی کرتے۔اس طرح اس کی جیب پر بوجھ بڑھنے لگا، لیکن وہ گھر پر بھی نہیں پی سکتا تھا، کیوں کہ اس کی بیوی کو شراب سے نفرت تھی۔
غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر اگرچہ مکمل ڈاکٹر نہیں بنا تھا لیکن اس میدان کا طالب علم ہونے کے لحاظ سے اپناڈاکٹری دماغ چلایااور اس ترکیب “شیک دی بوٹل بی فور یوز” سے ایک ایسی ترکیب نکالی جس سے سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی، اس نے سردرد کا بہانہ بنا کر دوائی کی بوتل میں شراب بھر کرلایااوربیوی کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ کی بتائی ہوئی سردرد کی دوا ہےتم روزانہ تین خوراک مجھے دیا کرنا، غلام رسول کی یہ ترکیب کام کرگئی۔ اب وہ روزانہ سردرد کا بہانہ کرکے شراب کے تین پیگ پیاکرتا تھا، لیکن ایک دن غلام رسول کالج سے لوٹاتو معاملہ الٹ چکا تھا نسیمہ کے سر میں درد کی وجہ سے اس نے رمضان علی شاہ کی دوخوراک لی تھی اور اب بہکی بہکی بات کر رہی تھی۔
تب ہی غلام رسول عرف راتھر نے دوسرے کمرے میں جا کرمضطرب حالت میں زمیندار کا تازہ پرچہ کھولا تو اس کو ایک خبر کی سرخی نظر آئی۔ ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول۔” اس کے نیچے یہ درج تھا کہ پولیس نے اس کو دھوکا دہی کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے۔
غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خدا وندی کے پھول برس رہے ہیں۔
افسانہ کے کردار
ڈاکٹر راتھر
غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر
نسیمہ
رمضان علی شاہ
مولوی صباح الدین (غلام رسول کے والد)
اہم نکات
ڈاکٹر راتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا جو اشتہاروں کے ذریعے سے قوت مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔ خدا اور اس کے رسول کی قسمیں کھا کھا کر اپنی دواؤں کو مجرب بتاتا تھا اور یوں سیکڑوں روپے کماتا تھا۔
ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں ۔سب سے بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر نہیں تھا اور نہ بننا چا ہتا تھا ۔ وہ ایک اطاعت مند بیٹے کی طرح اپنے ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کالج میں پڑھا تھا۔
ڈاکٹر راتھر تین مرتبہ ایم۔ بی ۔بی ۔ایس ۔ کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا
اس کو اپنے باپ سے دوسو روپیے ماہوار ملتے تھے۔ رہتا الگ تھا۔ مکان کا کرایہ بیس روپے ماہانہ تھا۔
اپنی زندگی میں پہلی بار اُس نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے ایک نیا امریکا دریافت کر لیا ہے
اہم اقتباس
وہ یہ سمجھنے لگا تھا کہ کالج اس کے کسی بزرگ کا گھر ہے جہاں اس کو ہر روز سلام عرض کرنے کے لئے جانا پڑتا ہے ۔