پیش خدمت ہے سعادت حسن منٹو کے مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل ساتواں افسانہ “باسط”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
باسط
باسط بالکل رضامند نہیں تھا، لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اس کے علاوہ وہ لڑ کی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر تک ٹالتا رہا۔ جتنے بہانے بنا سکتا تھا۔ اس نے بنائے لیکن آخر ایک روز اس کو ماں کی اٹل خواہش کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ دراصل انکار کرتے کرتے وہ بھی تنگ آگیا تھا چنانچہ اس نے دل میں سوچا۔” یہ بک بک ختم ہی ہو جائے تو اچھا ہے ہونے دو شادی کوئی قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑے گی ۔۔۔ میں نبھالوں گا ۔”
اس کی ماں بہت خوش ہوئی۔ لڑکی والے اس کے عزیز تھے اور وہ عرصہ ہوا ان کو زبان دے چکی تھی جب باسط نے ہاں کی تو وہ تاریخ پکی کرنے کے لئے لڑکی والوں کے ہاں گئی۔ انہوں نے ٹال مٹول کی تو باسط کی ماں کو بہت غصہ آیا۔ سعیدہ کی ماں، میں نے اتنی مشکلوں سے باسط کو رضا مند کیا ہے، اب تم تاریخ پکی نہیں کر رہی ہو۔ شادی ہوگی تو اسی مہینے کی بیس کو ہوگی۔ نہیں تو نہیں ہو گی۔ اور یہ بات سولہ آنے پکی ہے سمجھ لیا ۔”
دھمکی نے کام کیا۔ لڑکی کی ماں بالآخر راضی ہوگئی۔ سب تیاریاں مکمل ہوئیں ۔بیس کو دلہن گھر میں تھی۔ باسط کو گو وہ پسند نہیں تھی، لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زبردستی اس کے سر منڈھ دی گئی ہے ۔
نئی دلہنیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے ۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے ۔ شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چیز دور ہو جائےگی مگر وہ بڑھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لئے میکے بھیج دیا ۔ واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلاپن ایک حد تک دور ہو چکا تھا۔ باسط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی ۔ مگراس کا یہ قیاس غلط نکلا ۔سعیدہ پھر خوف زدہ رہنے لگی۔
باسط نے ایک روز اس سے پوچھا ” سعیدہ تم ڈری ڈری کیوں رہتی ہو۔”
سعیدہ یہ سن کر چونکی۔ “نہیں تو——نہیں تو”
باسط نے اس سے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا۔” آخر بات کیا ہے ——خدا کی قسم مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے——کس بات کا ڈر ہے تمہیں ….. میری ماں اتنی اچھی ہے ۔ وہ تم سے ساسوں کا سا سلوک نہیں کرتی ۔میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں——پھر تم ایسی صورت کیوں بنائے رکھتی ہو کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں یہ خوف ہے کہ کوئی تمہیں پیٹے گا۔ یہ کہہ کر اس نے سعیدہ کا منہ چوما ۔
سعیدہ خاموش رہی۔ اس کی آنکھیں البتہ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئیں۔ باسط نے اس کو اور پیار کیا اور کہا ” تمہیں ہر وقت ہنستی رہنا چاہیئے——لو اب ذرا ہنسو——ہنسو میری جان۔”
سعیدہ نے ہنسنے کی کوشش کی ۔ باسط نے پیار سے اس کو تھپکی دی۔ شاباش ! ——اسی طرح مسکراتا چہرہ ہونا چاہیئے ہر وقت !
باسط کی یہ محبت ظاہر ہے کہ بالکل مصنوعی تھی ، کیونکہ سعیدہ کے لئے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن وہ صرف اپنی ماں کی خاطر چاہتا تھا کہ سعیدہ سے اس کا رشتہ نا کام ثابت نہ ہو۔ اس کی ماں اپنی شکست بھی برداشت نہ کر سکتی۔ اس نے اپنی زندگی میں شکست کا منہ دیکھا ہی نہیں تھا ۔ اس لئے باسط کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ سعیدہ سے اس کی نبھ جائے ، چنانچہ اپنے دل میں سعیدہ کے لئے اس نے بڑے خلوص کے ساتھ مصنوعی محبت پیدا کر لی تھی۔اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا۔ اپنی ماں سے سعیدہ کی چھوٹی سی بات کی بھی تعریف کرتا تھا ۔جب وہ یہ محسوس کرتا کہ اس کی ماں بہت مطمئن ہے کہ اس نے باسط کا رشتہ ٹھیک جگہ کیا ہے تو اس کو دلی خوشی ہوتی۔
شادی کو ایک مہینہ ہوگیا۔ اس دوران میں سعیدہ کئی مرتبہ میکے گئی۔ باسط کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا خوف آلود شرمیلاپن دور ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اب تو سعیده وحشت زدہ دکھائی دیتی تھی۔ باسط حیران تھا کہ بات کیا ہے۔ اس کے بارے میں اس نے ماں سے کوئی بات نہ کی اس لئے کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کو ڈانٹ پلاتیں۔ بکواس نہ کرو۔ مجھے معلوم تھا تم ضرور ایک روز اس میں کیڑے ڈالوگے۔
باسط نے سعیدہ ہی سے کہا ۔”میری جان، تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو ۔”
سعیدہ چونک اٹھی ۔”جی ؟”
اس کے چونکنے پر باسط نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے سعیدہ کی کسی دکھتی رگ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ لہجے میں اور زیادہ پیار بھر کے اُس نے کہا ––”میں نے پوچھا تھا کہ اب تم اور زیادہ خوف زدہ رہنے لگی ہو۔ آخر بات کیا ہے ۔”
سعیدہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا ۔”بات تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ میں ذرا بیمار ہوں۔“
“کیا بیماری ہے––تم نے مجھ سے کبھی ذکر ہی نہیں کیا۔”
سعیدہ نے دوپٹے کے کنارے کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے جواب دیا۔” امی جان علاج کرا رہی ہیں میرا۔ جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی ۔ “
باسط نے سعیدہ سے اور زیادہ دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ وہ ہر روز چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے۔ ایک دن جب کہ وہ اپنے قفل لگے ٹرنک سے دوا نکال کر کھانے والی تھی۔ وہ اس کے پاس پہنچ گیا ۔ وہ زور سے چونکی ۔ سفوف کی کھلی ہوئی پڑیا اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ باسط نے اس سے پوچھا ۔ “یہ دوا کھاتی ہو۔”
سعیدہ نے تھوک نگل کر جواب دیا۔” جی ہاں ––امی جان نے حکیم صاحب سے منگوائی تھی۔”
” کچھ افاقہ ہے اس سے۔”
“جی ہاں ! “
“تو کھاؤ––اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا۔ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔”
سعیدہ نے پڑیا فرش پر سے اٹھائی اور سر ہلا کر کہا ”جی اچھا ۔”
باسط چلا گیا ، اس نے سوچا۔” اچھا ہے، کوئی علاج تو ہو رہا ہے۔ خدا کرے اچھی ہو جائے۔ میراخیال ہے یہ ڈر ورکچھ نہیں۔ بیماری ہے –– دور ہو جائیگی انشاءاللہ!”
اس نے سعیدہ کی اس بیماری کا اپنی ماں سے پہلی بار ذکر کیا تو کہنے لگی––” بکواس ہے ۔ خدا کے فضل وکرم سے اچھی بھلی ہے ۔ کیا بیماری ہے اسے ؟ “
باسط نے کہا۔” مجھے کیا معلوم امی جان ؟–– یہ توسعیدہ ہی بتا سکتی ہے آپ کو۔”
باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا ۔” میں پوچھوں گی اس سے”–– جب سعیدہ سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا۔” کچھ نہیں خالہ جان، سرمیں درد رہتا تھا۔ امی جان نے حکیم صاحب سے دوا منگا دی تھی۔ اصل میں باسط صاحب بڑے وہمی ہیں–– ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ تم ڈری ڈری سی دکھائی دیتی ہو–– مجھے ڈرکس بات کا ہو گا بھلا “
باسط کی ماں نے کہا۔”بکواس کرتا ہے۔تم اس کی فضول باتوں کا خیال نہ کرو”
چند روز کے بعد باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ بہت ہی زیادہ گھبرائی ہوئی ہے ۔اس کا اضطراب اس کے روئیں روئیں سے ظاہر ہوتا تھا۔ شام کے قریب اس نے باسط سے کہا ۔” امی جان سے ملنے کو جی چاہتا ہے ––مجھے وہاں چھوڑ آیئے ۔”
باسط نے جواب دیا۔” نہیں سعیدہ ۔آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
سعیدہ نے اصرار کیا ۔” آپ مجھے وہاں چھوڑ آئے ٹھیک ہو جاؤں گی ۔”
باسط نے انکار کر دیا۔ “وہاں طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے تو یہاں بھی ٹھیک ہوسکتی ہے۔ جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ۔”
باسط کی ماں آگئی۔ باسط نے اس سے کہا۔”امی جان، دیکھئے سعیدہ ضد کر رہی ہے طبیعت اس کی ٹھیک نہیں ، کہتی ہے مجھے امی جان کے پاس لے چلو۔”
باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا ۔” کل چلی جانا سعیدہ ۔”
سعیدہ نے اور کچھ نہ کہا۔ خاموش ہو کر باہر صحن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد باسط باہر نکلا۔سعیدہ صحن میں نہیں تھی۔ اس نے ادھر اُدھر تلاش کیا۔ مگر وہ نہ ملی۔ باسط نے سوچا اوپر کوٹھے پر ہو گی۔ اوپر گیا تو غسل خانے کا دروازہ بند تھا کھٹکھٹا کر اس نے آواز دی۔” سعیدہ! “
کوئی جواب نہ ملا تو پھر پکارا۔”سعیدہ!”
اندر سے بڑی نحیف آواز آئی۔”جی!”
باسط نے پوچھا۔ ” کیا کر رہی ہو۔”
اور زیادہ نحیف آواز آئی ۔” نہا رہی ہوں۔“
باسط نیچے آگیا۔ سعیدہ کے بارے میں سوچتا سوچتا باہرگلی میں نکلا ۔موری کی طرف نظر پڑی تو اس میں خون ہی خون تھا۔ اور یہ خون اس غسل خانے سے آرہا تھا۔ جس میں سعیدہ نہا رہی تھی۔ باسط کے ذہن میں تلے اوپر کئی خیالات اوندھے سیدھے گرے۔ پھر یہ گردان شروع ہوگئی۔” دوا خون خون دوا–– ڈر ––دوا––خون––ڈر ! “
پھر اس نے آہستہ آہستہ سوچنا شروع کیا۔ سعیدہ کی ماں شادی کی تاریخ پکی نہیں کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا ایک دو مہینے ٹھہر جاؤ –– سعیدہ کا بار بار اپنی ماں سے ملنے جانا–– اس کا ہر وقت خوفزدہ رہنا۔ دوا کھانا۔ اور خاص طور پر آج بہت ہی زیادہ وحشت زدہ رہنا۔
باسط سارا معاملہ سمجھ گیا۔ سعیدہ پیٹ سے تھی۔ جب وہ دلہن بن کر اس کے پاس آئی تھی۔ اس کی ماں کی یہ کوشش تھی کہ حمل گر جائے ۔ چنانچہ آج وہ چیز ہوگئی۔ باسط نے سوچا ۔”کیا میں اوپر جاؤں۔ جاکر سعیدہ کو دیکھوں –– اپنی ماں سے بات کروں “
ماں کا سوچا تو اس کو خیال آیا کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے گی ۔ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ذلیل ہونا کبھی گوارا نہیں کرے گی ۔ضرور کچھ کھا کر مرجائے گی۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اپنے کمرے میں گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔
کئی بار اس کو سعیدہ کا خیال آیا کہ وہ خدا معلوم کس حالت میں ہوگی۔ اس کے جسم پر اس کے دل و دماغ پر کیا کچھ بیتا ہوگا اور کیا بیت رہا ہو گا۔ کیسے اتنا بڑا راز چھپائے گی ۔ کیا لوگ پہچان نہیں جائیں گے۔ جوں جوں وہ سعیدہ کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ہمدردی کا جذ بہ بڑھتا جاتا ۔ اس کو سعیدہ پر ترس آنے لگا۔ “بےچاری معلوم نہیں، بے ہوش پڑی ہے یا ہوش میں ہے۔ ہوش میں بھی اس پر جانے کیا گذر رہی ہوگی––کیا وہ نیچے آ سکے گی ؟ “
تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر صحن میں گیا تو سعیدہ نیچے آئی۔ اس کا رنگ بے حد زرد تھا، اتنا زرد کہ وہ بالکل مردہ معلوم ہوتی تھی۔ اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔ ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ کمرمیں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ باسط نے اس کو دیکھا تو اس پر بہت ترس آیا۔ اندر سے برقع اٹھایا اور اس سے کہا ۔” چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔”
سعیدہ نے بہت ہمت سے کام لیا۔ باسط کے ساتھ چل کر باہر سٹرک تک گئی۔ باسط نے ٹانگہ لیا۔ اور اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا۔ ماں نے اس سے پوچھا۔ سعیدہ کہاں ہے ؟“
باسط نے جواب دیا ” ضد کرتی تھی۔ میں اسے چھوڑ آیا ہوں۔”
باسط کی ماں نے اس کو ڈانٹا ” بکواس کرتے ہو۔ ضد کرنے دی ہوتی۔ تم اسی طرح اس کی عادتیں خراب کروگے اور پھر مجھ سے کہو گے کہ میں نے غلط جگہ تمہارا رشتہ کیا تھا۔”
باسط نے کہا ۔” نہیں امی جان ۔سعیدہ بڑی اچھی لڑکی ہے ۔”
اس کی ماں مسکرائی۔” میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ وہ بہت نیک لڑکی ہے تم اسے ضرور پسند کروگے ۔” پھر تھوڑی دیر چھا لیا کاٹنے کے بعد ایک دم باسط سے مخاطب ہوئی ۔ “اور ہاں باسط یہ اوپر غسل خانے میں خون کیسا تھا۔”
باسط سٹپٹا سا گیا۔ “وہ –– کچھ نہیں امی جان میری نکسیر پھوٹی تھی ۔”
ماں نے بڑے غصے کے ساتھ کہا ۔” کم بخت گرم چیزیں نہ کھایا کرو ––جب دیکھو جیبیں مونگ پھلی سے بھری ہیں۔”
باسط کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ وہ اٹھ کر کہیں گئی تو باسط اوپر غسل خانے میں گیا۔ پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کیا۔ اس کے دل کو اس بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس نے اپنی ماں سے سعیدہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے سعیدہ پر یہ ظاہر ہونے دیا کہ وہ اس کا راز جانتا ہے ۔
وہ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ سعیدہ کا راز ہمیشہ اس کے سینے میں دفن رہےگا۔ وہ کافی تکلیف اٹھا چکی تھی۔ باسط کے خیال کے مطابق اس کو اپنے کئے کی سزا مل چکی تھی۔ مزید سنرا دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ “خدا کرے وہ جلد تندرست ہو جائے۔ اب اس کے چہرے پر وہ الجھن پیدا کرنے والا خوف نہیں رہے گا۔” وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے سے اس کی ماں کی چیخ کی آواز آئی۔ باسط لوٹا رکھ کر دوڑا نیچے گیا۔ سب کمرے دیکھے۔ ڈیوڑھی میں گیا تو اس کی ماں فرش پہ اوندھی پڑی تھی ، مردہ ۔ اس کے سامنے کوڑے والے لکڑی کے بکس میں ایک چھوٹا بہت ہی چھوٹا سا نامکمل بچہ کپڑے میں لپٹا پڑا تھا۔
باسط کو بے حد صدمہ ہوا ۔ اس نے پہلے اس بچے کو اٹھایا۔ کپڑے میں اچھی طرح لپیٹا اور اندر جا کر بوٹ کے خالی ڈبے میں بند کر دیا ۔ پھر ماں کو اٹھا کر اندر چارپائی پہ لٹایا اور اس کے سرہانے بیٹھ کہ دیر تک روتا رہا ۔
سعیدہ کو اطلاع پہنچی تو اس کو اپنی ماں کے ساتھ آنا پڑا۔ وہ اسی طرح زرد تھی۔
پہلے سے زیادہ نڈھال۔ باسط کو بہت ترس آیا۔ اس سے کہا۔ “سعیدہ جو اللہ کو منظور تھا ہوگیا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ رونا بند کرو اور جاؤ اندر لیٹ جاو۔”
اندر جانے کے بجائے سعیدہ ڈیوڑھی میں گئی جب واپس آئی تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔باسط خاموش رہا۔ سعیدہ نے اس کی طرف دیکھا ، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ آنسو صاف بتا رہے تھے کہ وہ باسط کا شکریہ ادا کر رہی ہے باسط نے اس سے بڑے پیار سے کہا ۔ “زیادہ رونا اچھا نہیں سعیدہ جو خدا کو منظور تھا ہو گیا ۔”
دوسرے روز اس نے بچے کو نہر کے کنارے گڑھا کھود کر دفنا دیا ۔
۲۹-جولائی 1950ء