پیش خدمت ہے سعادت حسن منٹو کے مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل پانچواں افسانہ “پیرن”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
پیرن
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بے حد مفلس تھا۔ بمبئی میں نوروپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کا نل تھا نہ بجلی۔ ایک نہایت ہی غلیظ کوٹھڑی تھی جس کی چھت پر سے ہزار ہا کھٹمل میرے اوپر گرا کرتے تھے۔ چوہوں کی بھی کافی بہتات تھی——اتنے بڑے چوہے میں نے پھر کبھی نہیں دیکھے۔ بلّیاں ان سے ڈرتی تھیں ۔
چا لی یعنی بلڈنگ میں صرف ایک غسل خانہ تھا جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صبح سویرے چالی کی عورتیں پانی بھرنے کے لئے اس غسل خانے میں جمع ہوجاتی تھیں ۔ یہودی، مرہٹی ، گجراتی ، کرسچین——بھانت بھانت کی عورتیں
میرا یہ معمول تھا کہ ان عورتوں کے اجتماع سے بہت پہلے غسل خانے میں جاتا، دروازہ بھیڑتا اور نہانا شروع کر دیتا۔ ایک روز میں دیر سے اٹھا غسل خانے میں پہنچ کر نہانا شروع کیا تو تھوڑی دیر کے بعد کھٹ سے دروازہ کھلا میری پڑوسن تھی۔ بغل میں گاگر دبائے اس نے معلوم نہیں کیوں ایک لحظے کے لئے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر ایک دم پلٹی ۔ گاگر اس کی بغل سے پھسلی اور فرش پر لڑھکنے لگی۔ ——ایسی بھاگی جیسے کوئی شیر اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ میں بہت ہنسا، اٹھ کر دروازہ بند کیا اور نہانا شروع کر دیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھلا۔برج موہن تھا۔میں نہا کے فارغ ہو چکا تھا اور کپڑے پہن رہا تھا۔اس نے مجھ سے کہا۔”بھئ منٹو آج اتوار ہے۔”
مجھے یاد آ گیا کہ برج موہن کو باندرہ جانا تھا،اپنی دوست پیرن سے ملنے کے لئے۔ وہ ہر اتوار کو اس سے ملنے جاتا تھا۔ وہ ایک معمولی شکل و صورت کی پارسی لڑکی تھی جس سے برج موہن کا معاشقہ قریباً تین برس سے چل رہا تھا ۔
ہر اتوار کو برج موہن مجھ سے آٹھ آنے ٹرین کے کرائے کے لئے لیتا۔ پیرن کے گھر پہنچتا۔ دونوں آدھے گھنٹے تک آپس میں باتیں کرتے ۔ برج موہن السٹریٹڈویکلی کے کراس ورڈ پزل کے حل اس کو دیتا اور چلا آتا۔ وہ بیکار تھا۔ سارا دن سر نیوڑھائے یہ پزل اپنی دوست پیرن کے لئے حل کرتا رہتا تھا۔ اس کو چھوٹے چھوٹے کئی انعام مل چکے تھے مگر وہ سب پیرن نے وصول کئے تھے۔ برج موہن نے ان میں سے ایک دمڑی بھی اس سے نہ مانگی تھی۔
برج موہن کے پاس پیرن کی بے شمار تصویریں تھیں۔ شلوارقمیص میں چست پیجامے میں، ساڑھی میں ،فراک میں، بیدنگ کسٹیوم میں، فینسی ڈریس میں—— غالباً سو سے اوپر ہونگی۔ پیرن قطعاً خوبصورت نہیں تھی، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت ہی ادنی شکل و صورت کی تھی لیکن میں نے اپنی اس رائے کا اظہار برج موہن سے کبھی نہیں کیا تھا۔ میں نے پیرن کے متعلق کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے، کیا کرتی ہے، برج موہن سے اس کی ملاقات کیسے ہوئی، عشق کی ابتدا کیوں کر ہوئی۔ کیا وہ اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ؟ —— برج موہن نے بھی اس کے با رے میں مجھ سے کبھی بات چیت نہ کی تھی۔ بس ہر اتوار کو وہ ناشتے کے بعد مجھ سے آٹھ آنے کرائے کے لیتا اور اس سے ملنے کے لئے باندرہ روانہ ہو جاتا اور دوپہر تک لوٹ آتا۔
میں نے کھولی میں جا کر اس کو آٹھ آنے دیئے ، وہ چلا گیا ۔ دوپہر کو لوٹا تو اس نے خلاف معمول مجھ سے کہا۔” آج معاملہ ختم ہو گیا۔”
میں نے اس سے پوچھا ۔” کون سا معاملہ؟” مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس معاملے کی بات کر رہا ہے۔
برج موہن نے جیسے اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے مجھ سے کہا۔ “پیرن سے آج دو ٹوک فیصلہ ہو گیا ہے —— میں نے اس سے کہا۔ جب بھی تم سے ملنا شروع کرتا ہوں مجھے کوئی کام نہیں ملتا۔ تم بہت منحوس ہو۔ اس نے کہا بہتر ہے، ملنا چھوڑ دو ۔ دیکھونگی تمہیں کیسے کام ملتا ہے۔ میں منحوس ہوں مگر تم اول درجے کے نکھٹو اور کام چور ہو—— سو اب یہ قصہ ختم ہوگیا ہے اور میرا خیال ہے انشاءاللہ کل ہی مجھے کام مل جائیگا صبح تم مجھے چار آنے دینا۔ میں سیٹھ نانو بھائی سے ملوں گا، وہ مجھے ضرور اپنا اسسٹنٹ رکھ لے گا ۔”
یہ سیٹھ نانو بھائی جو فلم ڈائرکٹر تھا متعدد مرتبہ برج موہن کو ملازمت دینے سے انکار کر چکا تھا۔ کیونکہ اس کا بھی پیرن کی طرح یہی خیال تھا کہ وہ کام چور اور نکما ہے، لیکن دوسرے روز جب برج موہن مجھ سے چار آنے لے کر گیا تو دوپہر کو اس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ سیٹھ نانو بھائی نے بہت خوش ہو کر اسے ڈھائی سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے ۔ کنٹریکٹ ایک برس کا ہے جس پر دستخط ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو روپے نکالے اور مجھے دکھائے۔” یہ ایڈوانس ہے —— جی تومیرا چاہتا ہے کہ کنٹریکٹ اور سو روپے لیکر باندرہ جاؤں اور پیرن سے کہوں کہ لو دیکھو مجھے کام مل گیا ہے، لیکن ڈر ہے کہ نانو بھائی مجھے فوراً جواب دے دے گا—— میرے ساتھ ایک نہیں کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ ادھر ملازمت ملی ، ادھر پیرن سے ملاقات ہوئی —— معاملہ صاف۔ کسی نہ کسی بہانے مجھے نکال باہر کیا گیا۔ خدا معلوم اس لڑکی میں یہ نحوست کہاں سے آگئی۔ اب میں کم از کم ایک برس تک اس کا منہ نہیں دیکھوں گا۔ میرے پاس کپڑے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک برس لگا کر کچھ بنوا لوں تو پھر دیکھا جائے گا۔”
چھ مہینے گزر گئے۔ برج موہن برابر کام پر جا رہا تھا۔ اس نے کئی نئے کپڑے بنوا لئے تھے۔ ایک درجن رومال بھی خرید لئے تھے ۔ اب وہ تمام چیزیں اس کے پاس تھیں جو ایک کنوارے آدمی کے آرام و آسائش کے لئے ضرو ری ہوتی ہیں۔ ایک روز وہ اسٹڈیو گیا ہوا تھا کہ اس کے نام ایک خط آیا شام کو جب وہ لوٹا تو میں اسے یہ خط دینا بھول گیا۔ صبح ناشتے پر مجھے یاد آیا تو میں نے یہ خط اس کے حوالے کر دیا۔ لفافہ پکڑتے ہی وہ زور سے چیخا۔ “لعنت !”
میں نے پوچھا ۔”کیا ہوا ؟”
وہی پیرن—— اچھی بھلی زندگی گذر رہی تھی۔” یہ کہہ کر اس نے چمچ سے لفافہ کھولا خط کا کاغذ نکالا اور مجھ سے کہا۔ “وہی کمبخت ہے—— میں کبھی اس کا ہینڈ رائٹنگ بھول سکتا ہوں۔“
میں نے پوچھا” کیا لکھتی ہے؟”
” میرا سر—— کہتی ہے مجھ سے اس اتوار کو ضرور ملو تم سے کچھ کہنا ہے ۔ یہ کہہ کر برج موہن نے خط لفافے میں ڈالا اور جیب میں رکھ لیا ۔”لو بھئ منٹو، نوکری سے انشاء اللہ کل ہی جواب مل جائے گا۔”
” کیا بکواس کرتے ہو۔”
برج موہن نے بڑے وثوق سے کہا۔ “نہیں منٹو تم دیکھ لینا ۔کل اتوا رہے ۔ پرسوں نانو بھائی کو ضرورمجھ سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہوگی۔ اور وہ مجھے فوراً نکال باہر کرےگا۔”
میں نے اس سے کہا ” اگر تمہیں اتنا و ثوق ہے تو مت جاؤ اس سے ملنے۔”
“یہ نہیں ہوسکتا—— وہ بلائے تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔”
“کیوں ؟”
“ملازمت کرتے کرتے کچھ میں بھی اکتا چکا ہوں—— چھ مہینے سے اوپر ہوگئے ہیں“ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور چلا گیا۔
دوسرے روز ناشتہ کر کے وہ باندرہ چلا گیا۔ پیرن سے ملاقات کر کے لوٹا۔ تو اس نے اس ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی ۔ میں نے اس سے پوچھا۔ مل آئے اپنے منحوس ستارے سے ؟ “
” ہاں بھئی__ اس سے کہہ دیا کہ ملازمت سے بہت جلد جواب مل جائے گا۔” یہ کہہ کر وہ کھاٹ پر سے اٹھا ۔”چلو آؤ کھانا کھا آئیں “
ہم دونوں نے حاجی کے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران میں پیرن کی کوئی بات نہ ہوئی۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے صرف اتنا کہا ۔” اب دیکھتے کل کیا گل کھلتا ہے ۔”
میرا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مگر دوسرے روز برج موہن خلاف معمول اسٹیڈیو سے جلدی لوٹ آیا۔ مجھ سے ملا تو خوب زور سے ہنسا۔” جواب مل گیا بھائی۔”
میں نے سمجھا مذاق کر رہا ہے ” ہٹاؤ جی “
جو ہٹنا تھا وہ تو ہٹ گیا—— اب میں کیسے ہٹاؤں سیٹھ نانو بھائی پر ٹانچ آ گئی ہے —— اسٹڈیوسیل ہو گیا ہے۔ میری وجہ سے خواہ مخواہ بیچارے نانو بھائی پر بھی آفت آئی ۔ یہ کہہ کر برج موہن پھر ہنسنے لگا ۔
میں نے صرف اتنا کہا۔” یہ عجیب سلسلہ ہے !“
“دیکھ لو—— اسے کہتے ہیں ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔ برج موہن نے سگرٹ سلگایا اور کیمرہ اٹھا کر باہر گھومنے چلا گیا۔
برج موہن اب بیکار تھا۔ جب اس کی جمع پونجی ختم ہوگئی تو اس نے ہر اتوار کو پھر سے مجھ سے باندرہ جانے کے لئے آٹھ آنے مانگنے شروع کر دئے ۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں آدھ پون گھنٹے میں وہ پیرن سے کیا باتیں کرتا تھا۔ ویسے وہ بہت اچھی گفتگو کرنے والا تھا ۔ مگر اس لڑکی سے جس کی نحوست کا اس کو مکمل طور پریقین تھا وہ کس قسم کی باتیں کرتا تھا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا۔” برج، کیا پیرن کو بھی تم سے محبت ہے ؟“
“نہیں ،وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے ۔ “
تم سے کیوں ملتی ہے ؟”
“اس لئے کہ میں ذہین ہوں، اس کے بھدے چہرے کو خوبصورت بنا کر پیش کر سکتا ہوں۔ اس کے لئے کراس ورڈ پزل حل کرتا ہوں ۔کبھی کبھی اس کو انعام بھی دلوا دیتا ہوں —— منٹو تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ میں خوب پہچانتا ہوں انہیں—— جس سے وہ محبت کرتی ہے اس میں جو کمی ہے، مجھ سے مل کر پوری کر لیتی ہے۔” یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔” بڑی چارسوبیس ہے !”
میں نے قدرے حیرت سے پوچھا ۔ “مگر تم کیوں اس سے ملتے ہو ؟”
برج موہن ہنسا، چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ کر اس نے کہا۔ ” مجھے مزا آتا ہے۔”
“کس بات کا ؟”
” اس کی نحوست کا “—— میں اس کا امتحان لے رہا ہوں۔ اس کی نحوست کا امتحان —— یہ نحوست اپنے امتحان میں پوری اتری ہے ۔ میں نے جب بھی اس سے ملنا شروع کیا، مجھے اپنے کام سے جواب ملا —— اب میری ایک خواہش ہے کہ اس کے منحوس اثر کو چکمہ دے جاؤں۔”
میں نے اس سے پوچھا ۔”کیا مطلب؟ “
برج موہن نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ “میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ملازمت سے جواب ملنے سے پہلے ملازمت سے علیحدہ ہو جاؤں، یعنی خود اپنے آقا کو جواب دے دوں۔ اس سے بعد میں کہوں جناب مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے برطرف کرنے والے ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کو زحمت نہ دی اور خود علیحده ہو گیا اور آپ مجھے برطرف نہیں کر رہے تھے ،یہ میری دوست پیرن تھی جس کی ناک کیمرے میں اس طرح گھستی ہے جیسے تیر!”
برج موہن مسکرایا۔ “یہ میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے، دیکھو پوری ہوتی ہے یا نہیں۔”
میں نے کہا۔ عجیب و غریب خواہش ہے۔”
” میری ہر چیز عجیب وغریب ہوتی ہے پچھلے اتوار میں نے پیرن کے اس دوست کے لئے جس سے وہ محبت کرتی ہے، ایک فوٹو تیار کر کے دیا۔ الو کی دم اسے کمپی ٹیشن میں بھیجے گا یقینی طور پر انعام ملے گا اسے۔” یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔
برج موہن واقعی عجیب و غریب آدمی تھا۔ وہ پیرن کے دوست کو کئی بار فوٹو تیار کر کے دے چکا ہے۔ السٹرٹیڈویکلی میں یہ فوٹو اس کے نام سے چھپتے تھے اور پیرن بہت خوش ہوتی تھی۔ برج موہن ان کو دیکھتا تھا تومسکرا دیتا تھا۔ وہ پیرن کے دوست کی شکل صورت سے نا آشنا تھا ، پیرن نے برج موہن سے اس کی ملاقات تک نہ کرائی تھی۔ صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کسی مل میں کام کر تا ہے اور بہت خوبصورت ہے۔
ایک اتوار کو برج باندرہ سے واپس آیا تو اس نے مجھ سے کہا ” لو بھئ منٹو، آج معاملہ ختم ہو گیا۔”
میں نے اس سے پوچھا۔ پیرن والا ؟ “
ہاں بھئ—— کپڑے ختم ہو رہے تھے، میں نے سوچا کہ یہ سلسلہ ختم کرو —— اب انشاء اللہ دنوں ہی میں کوئی نہ کوئی ملازمت مل جائے گی —— میرا خیال ہےسیٹھ نیاز علی سے ملوں —— اس نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا ہے —— کل ہی جاؤں گا۔ تم یار ذرا اس کے دفتر کا پتا لگا لینا۔
میں نے اس کے دفتر کا نیا فون ایک دوست سے پوچھ کر برج موہن کو بتا دیا۔ وہ دوسرے روز وہاں گیا۔ شام کو لوٹا ۔ اس کے مطمئن چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔”لو بھئ منٹو۔” یہ کہہ کر اس نے جیب سے ٹائپ شدہ کاغذ نکالا اور میری طرف پھینک دیا۔ ”ایک پکچر کا کنٹریکٹ تنخواہ دوسو روپے ماہوار۔ کم ہے،لیکن سیٹھ نیاز علی نے کہا ہے، بڑھا دوں گا —— ٹھیک ہے !”
میں ہنسا۔ “اب پیرن سے کب ملو گے ؟”
برج موہن مسکرایا ۔” کب ملوں گا ؟ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے اس سے کب ملنا چاہیئے منٹو یار، میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک میری چھوٹی سی خواہش ہے بس وہ پوری ہو جائے میرا خیال ہے مجھے اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ ذرا میرے تین چار جوڑے بن جائیں۔ پچاس روپے ایڈوانس لے آیا ہوں پچیس تم رکھ لو ۔”
پچیس میں نے لئے۔ ہوٹل والے کا قرض تھا جو فوراً چکا دیا گیا۔ ہمارے دن بڑی خوشحالی میں گذرنے لگے۔ سو روپیہ ماہوار میں کما لیتا تھا۔ دوسو روپے ماہانہ برج موہن لے آتا تھا۔ بڑے عیش تھے ۔ پانچ مہینے گزر گئے کہ اچانک ایک روز پیرن کا خط برج موہن کو وصول ہوا ؟” لو بھئ منٹو، عزرائیل صاحب تشریف لے آئے۔
صحیح بات ہے کہ میں نے اس وقت خط دیکھ کر خوف سا محسوس کیا مگر برج موہن نے مسکراتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ خط کا کاغذ نکال کر پڑھا۔ بالکل مختصر تحریر تھی۔میں نے برج سے پوچھا۔” کیا فرماتی ہیں ؟ “
“فرماتی ہیں اتوار کو مجھ سے ضرور ملو۔ ایک اشد ضروری کام ہے۔” برج موہن نے خط لفافے میں واپس ڈال کر اپنی جیب میں رکھ لیا ۔
میں نے اس سے پوچھا۔ ” جا ؤ گے ؟ “
“جانا ہی پڑے گا—— ” پھر اس نے یہ فلمی گیت گانا شروع کر دیا۔
“مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا !”
میں نے اس سے کہا۔”برج مت جاؤ اس سے ملنے—— بڑے اچھے دن گذر رہے ہیں ہمارے—— تم نہیں جانتے، میں خدا معلوم کس طرح تمہیں آٹھ آنے دیا کرتا تھا ۔ “
برج موہن مسکرایا ۔ “مجھے سب معلوم ہے، لیکن افسوس ہے کہ اب وہ دن پھر آنے والے ہیں۔ جب تم خدا معلوم کس طرح مجھے ہر اتوار آٹھ آنے دیا کروگے !”
اتوار کو برج ،پیرن سے ملنے باندرہ گیا ۔ واپس آیا تو اس نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔ “میں نے اس سے کہا ، یہ بارھویں مرتبہ ہے کہ مجھے تمہاری نحوست کی وجہ سے برطرف ہونا پڑے گا—— تم پر رحمت ہو زر تشت کی ! “
میں نے پوچھا ۔ “اس نے یہ سن کر کچھ کہا ۔”
برج نے جواب دیا ۔”فقط یہ___ تم سلی ایڈیٹ ہو !
“تم ہو ؟”
“سو فی صدی ! “ یہ کہہ کر برج ہنسا ۔” اب میں کل صبح دفتر جاتے ہی استعفیٰ پیش کر دینے والا ہوں۔ میں نے وہیں پیرن کے ہاں لکھ لیا تھا۔“
برج موہن نے مجھے استعفیٰ کا کاغذ دکھایا۔ دوسرے روز خلاف معمول اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو لوٹا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ مجھے ہی بالآخر اس سے پوچھنا پڑا ۔ ” کیوں برج کیا ہوا ؟ “
اس نے بڑی نا امیدی سے سر ہلایا ۔ کچھ نہیں یار—— سارا قصہ ہی ختم ہو گیا ۔
“کیا مطلب ؟ “
میں نے سیٹھ نیاز علی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تو اس نے مسکرا کر مجھے ایک آفیشل خط دیا۔ اس میں یہ لکھا تھا۔ کہ میری تنخواہ پچھلے مہینے سے دوسو کے بجائے تین سو روپے ماہوار کر دی گئی ہے!”
پیرن سے برج موہن کی دلچسپی ختم ہو گئی اس نے مجھ سے ایک روز کہا “پیرن کی نحوست ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی ختم ہوگئی—— اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب کون مجھے بیکار رکھنے کا موجب ہو گا ۔”
____
27 جولائی 1950ء