پیش خدمت ہے سعادت حسن منٹو کے مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل آٹھواں افسانہ “شاردا”۔ پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
شاردا
نذیر بلیک مارکٹ سے وسکی کی بوتل لانے گیا۔ بڑے ڈاک خانے سے کچھ آگے بندرگاہ کے پھاٹک سے کُچھ اُدھر سگریٹ والے کی دکان سے اس کو اسکو چ مناسب داموں پر مل جاتی تھی۔ جب اس نے پینتیس روپے ادا کر کے کا غذ میں لپٹی ہوئی بوتل لی تو اس وقت گیارہ بجے تھے دن کے ۔یوں تو وہ رات کو پینے کا عادی تھا مگر اس روز موسم خوشگوار ہونے کے باعث وہ چاہتا تھا کہ صبح ہی سے شروع کر دے اور رات تک پیتا رہے۔
بوتل ہاتھ میں پکڑے وہ خوش خوش گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا ارادہ تھاکہ یوری بندر کے اسٹینڈ سے ٹیکسی لے گا۔ ایک پگ اس میں بیٹھ کر پئے گا اور ہلکےہلکے سرور میں گھر پہنچ جائے گا۔ بیوی منع کرے گی تو وہ اس سے کہے گا ۔”موسم دیکھ کتنا اچھا ہے۔” پھر وہ اسے وہ بھونڈا سا شعر سنائے گا ؎
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گناہ کیجئے ثواب ہے آج
وہ کچھ دیر ضرور چخ کرے گی لیکن بالآخرخاموش ہو جائے گی اور اس کے کہنے پر قیمے کے پراٹھے بنانا شروع کر دےگی۔
دکان سے وہ بیس پچیس گز دور گیا ہوگا کہ ایک آدمی نے اس کو سلام کیا۔ نذیر کا حافظہ کمز ور تھا۔ اس نے سلام کرنے والے آدمی کو نہ پہچانا لیکن اس پر یہ ظاہرنہ کیا کہ وہ اس کو نہیں جانتا، چنانچہ بڑے اخلاق سے کہا۔ “کیوں بھئی کہاں ہوتے ہو۔کبھی نظر ہی نہیں آئے ۔”
اس آدمی نے مسکرا کر کہا ۔ “حضور ، میں تو یہیں ہوتا ہوں۔ آپ ہی کبھی تشریف نہیں لائے؟ “
نذیر نے اس کو پھر بھی نہ پہچانا ۔ “میں اب جو تشریف لے آیا ہوں۔ “
تو چلئے میرے ساتھ۔”
نذیر اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھا۔ چلو“
اس آدمی نے نذیر کے ہاتھ میں بوتل دیکھی اور معنی خیزطریقے پرمسکرایا ۔”باقی سامان تو آپ کے پاس موجود ہے ۔”
یہ فقرہ سن کر نذیر نے فورا ہی سوچا کہ وہ دلّال ہے ۔” تمہارا نام کیا ہے؟”
“کریم –– آپ بھول گئے تھے!”
نذیر کو یاد آ گیا کہ شادی سے پہلے ایک کریم اس کے لئے اچھی اچھی لڑکیاں لایا کرتاتھا۔ بڑا ایماندار دلال تھا۔ اس کو غور سے دیکھا تو صورت جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ پھر پچھلے تمام واقعات اس کے ذہن میں ابھر آئے ۔ کریم سے اس نے معذرت چاہی ، یار میں نے تمہیں پہچانا نہیں تھا۔ میرا خیال ہے۔ غالبا چھ برس ہو گئے ہیں تم سے ملے ہوئے۔”
“جی ہاں۔“
“تمہا را اڈہ تو پہلے گرانٹ روڈ کا نا کا ہوا کرتا تھا ؟ “
کریم نے بیڑی سلگائی اور ذرا فخر سے کہا “وہ میں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی دعا سے اب یہاں ایک ہوٹل میں دھندا شروع کر رکھا ہے۔”
نذیر نے اس کو داد دی۔” یہ بہت اچھا کیا ہے تم نے ۔“
کریم نے اور زیادہ فخریہ لہجے میں کہا ” دس چھوکری ہیں ––ایک بالکل نئی ہے۔ “
نذیر نے اس کو چھیڑ نے کے انداز میں کہا ۔ “تم لوگ یہی کہا کرتے ہو۔ “
کریم کو برا لگا “قسم قران کی، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔سؤر کھاؤں اگر وہ چھوکری بالکل نئی نہ ہو ۔ پھر اس نے اپنی آواز دھیمی کی اور نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔ آٹھ دن ہوئے ہیں جب پہلا پیسنجر آیا تھا۔ جھوٹ بولوں تو میرا منہ کالا ہو۔ “
نذیر نے پوچھا ۔”کنواری تھی؟
“جی ہاں –– دو سو روپے لئے تھے اس پیسنجر سے ؟ “
نذیر نے کریم کی پسلیوں میں ایک ٹھونکا دیا۔ “لو ،یہی بھاؤ پکّا کرنے لگے۔”
کریم کو نذیر کی یہ بات پھر بری لگی ۔ ” قسم قرآن کی سؤر ہو جو آپ سے بھاؤ کرے۔ آپ تشریف لے چلئے۔ آپ جو بھی دیں گے مجھے قبول ہوگا۔ کریم نے آپ کا بہت نمک کھایا ہے۔”
نذیر کی جیب میں اس وقت ساڑھے چار سو روپے تھے۔ موسم اچھا تھا۔ موڈ بھی اچھا تھا۔ وہ چھ برس پیچھے کے زمانے میں چلا گیا۔ بن پئے مسرور تھا ۔ ” چلو یار آج تمام عیاشیاں رہیں—— ایک بوتل کا اور بند وبست ہوجانا چاہیئے۔ “
کریم نے پوچھا۔” آپ کتنے میں لائے ہیں یہ بوتل ؟ “
“پینتیس روپے میں ۔”
” کون سا برانڈ ہے ؟ “
کریم نے چھاتی پر ہاتھ مار کر کہا ۔ “میں آپ کو تیس میں لا دوں گا ۔ “
نذیر نے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور کریم کے ہاتھ میں دے دیئے ۔ “نیکی اور پوچھ پوچھ یہ لو۔ مجھے وہاں بٹھاکرتم پہلا کام یہی کرنا۔ تم جانتے ہو، میں ایسے معاملوں پر اکیلا نہیں پیا کرتا۔”
کریم مسکرایا ۔ “اور آپ کو یاد ہوگا۔ میں ڈیڑھ پگ سے زیادہ نہیں پیاکرتا۔”
نذیر کو یاد آگیا کہ کریم واقعی آج سے چھ برس پہلے صرف ڈیڑھ پگ لیا کرتا تھا۔ یہ یاد کر کے نذیر بھی مسکرا یا۔ “آج دور ہیں ۔”
“جی نہیں۔ ڈیڑھ سے زیادہ ایک قطرہ بھی نہیں۔”
کریم ایک تھرڈ کلاس بلڈنگ کے پاس ٹھہر گیا جس کے ایک کونے میں چھوٹے سے میلے بورڈ پر” میرینا ہوٹل “لکھا تھا۔ نام تو خوبصورت تھا۔ مگر عمارت نہایت ہی غلیظ تھی۔سیڑھیاں شکستہ نیچے سودخوار پٹھان بڑی بڑی شلواریں پہنے کھاٹوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی منزل پر کرسچین آباد تھے۔ دوسری منزل پر جہاز کے بے شمار خلاصی۔ تیسری منزل ہوٹل کے مالک کے پاس تھی۔ چوتھی منزل پر کونے کا ایک کمرہ کریم کے پاس تھا جس میں کئی لڑکیاں مرغیوں کی طرح اپنے ڈربے میں بیٹھی تھیں۔
کریم نے ہوٹل کے مالک سے چابی منگوائی۔ ایک بڑا لیکن بے ہنگم سا کمرہ کھولا جس میں لوہے کی ایک چار پائی ، ایک کرسی اور ایک تپائی پڑی تھی۔ تین اطراف سے یہ کمرہ کھلا تھا یعنی بے شمار کھڑکیاں تھیں، جن کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔اور کچھ نہیں، لیکن ہوا کی بہت افراط تھی۔
کریم نے آرام کرسی جو کہ بے حد میلی تھی ، ایک اس سے زیادہ میلے کپڑے سے صاف کی اور نذیر سے کہا۔ ” تشریف رکھیئے ، لیکن میں یہ عرض کر دوں اس کمرے کا کرایہ دس روپے ہوگا۔”
نذیر نے کمرے کو اب ذرا غور سے دیکھا۔ دس روپے زیا دہ ہیں یار؟”
کریم نے کہا ۔ “یہ بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا کیا جائے۔ سالا ہوٹل کا مالک ہی بنیا ہے۔ ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ اور نذیر صاحب موج شوق کرنے والے آدمی بھی زیادہ کی پروا نہیں کرتے ۔”
نذیر نے کچھ سوچ کر کہا ۔ ” تم ٹھیک کہتے ہو –––کیرایہ پیشگی دے دوں ؟ “
“جی نہیں ۔ آپ پہلے چھوکری تو دیکھئے۔” یہ کہہ کر وہ اپنے ڈربے میں چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی شرمیلی لڑکی تھی۔ گھریلو قسم کی ہندولڑ کی سفید دھوتی باندھے تھی۔ عمر چودہ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ خوش شکل تو نہیں تھی لیکن بھولی بھالی تھی۔
کریم نے اس سے کہا۔” بیٹھ جاؤ۔ یہ صاحب میرے دوست ہیں۔ بالکل اپنےآدمی ہیں۔”
لڑکی نظریں نیچی کئے لوہے کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کریم یہ کہہ کر چلا گیا۔ اپنا اطمینان کر لیجے نذیر صاحب میں گلاس اور سوڈا لاتا ہوں ۔ نذیر آرام کرسی پر سے اٹھ کر لڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ سمٹ کرایک طرف ہٹ گئی۔ نذیر نے اس سے کچھ برس پہلے کے انداز میں پوچھا۔ ”آپ کا نام “
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ نذیر نے آگے سرک کر اس کے ہاتھ پکڑے اور پھر پوچھا۔ “آپ کا نام کیا ہے جناب ؟ “
لڑکی نے ہاتھ چھوڑا کر کہا۔ “شکنتلا۔”
اور نذیر کوشکنتلا یاد آگئی جس پر راجہ دشینت عاشق ہوا تھا۔” میرا نام دشینت ہے۔”
نذیر مکمل عیاشی پر تلا ہوا تھا۔ لڑکی نے اس کی بات سنی اور مسکرا دی۔ اتنے میں کریم آ گیا۔ اس نے نذیر کو سوڈے کی چار بوتلیں دکھائیں جو ٹھنڈی ہونے کے باعث پسینہ چھوڑ رہی ہیں۔ “مجھے یاد ہے کہ آپ کو روجر کا سوڈا پسند ہے۔برف میں لگا ہوا لے کر آیا ہوں ۔”
نذیر بہت خوش ہوا ۔ “تم کمال کرتے ہو ۔” پھر وہ لڑ کی سے مخاطب ہوا۔ ” جناب آپ بھی شوق فرمائیں گی ؟ “
لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ کریم نے جواب دیا ۔ “نذیر صاحب یہ نہیں پیتی۔ آٹھ دن تو ہوئے ہیں اس کو یہاں آئے ہوئے۔”
یہ سن کر نذیر کو افسوس سا ہوا۔ “یہ تو بہت بری بات ہے۔”
کریم نے وسکی کی بوتل کھول کر نذیر کے لئے ایک بڑا پگ بنایا اور اس کو آنکھ مار کر کہا۔ ” آپ راضی کر لیجئے اسے “
نذیر نے ایک ہی جرعے میں گلاس ختم کیا۔ کریم نے آدھا پگ پیا۔ فوراً ہی اس کی آواز نشہ آلود ہوگئی، ذرا جھوم کر اس نے نذیر سے پوچھا۔”چھوکری پسند ہے نا آپ کو ؟ “
نذیر نے سوچا کہ لڑکی اسے پسند ہے کہ نہیں لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا ۔ اس نے شکنتلا کی طرف غور سے دیکھا۔ اگر اس کا نام شکنتلا نہ ہوتا تو بہت ممکن ہے وہ اسے پسند کر لیتا۔ وہ شکنتلا جس پہ راجہ دشینت شکار کھیلتے کھیلتے عاشق ہوا تھا۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ کم از کم کتابوں میں تو یہی درج تھا کہ وہ چندے آفتاب چندے مہتاب تھی۔ آہو چشم تھی۔ نذیر نے ایک بار پھر اپنی شکنتلا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بری نہیں تھیں۔ آہو چشم تو نہیں تھی،لیکن اس کی آنکھیں اس کی اپنی آنکھیں تھیں۔ کالی کالی اور بڑی بڑی۔ اس نے اور کچھ نہ سوچا اور کریم سے کہا ٹھیک ہے یار بولو معاملہ کہاں سے طے ہوتا ہے ؟ “
کریم نے آدھا پگ اپنے لئے اور انڈیلا اور کہا ۔ “سو روپئے !”۔
نذیر نے سوچنا بند کر دیا تھا ۔ ” ٹھیک ہے !”۔
کریم اپنا دوسرا آدھا پگ پی کر چلا گیا۔ نذیر نے اٹھ کر دروازہ بند کر دیا شکنتلا کے پاس بیٹھا تو وہ گھبرا سی گئی۔ نذیر نے اس کا پیار لینا چاہا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی ۔ نذیر کو اس کی یہ حرکت ناگوار محسوس ہوئی لیکن اس نے پھر کوشش کی۔بازو سے پکڑ کر اس کو اپنے پاس بٹھایا۔ زبر دستی اس کو چوما۔ بہت ہی بے کیف سلسلہ تھا۔ البتہ وسکی کا نشہ اچھا تھا۔ وہ اب تک کچھ پگ پی چکا تھا اور اس کو افسوس تھا کہ اتنی مہنگی چیز بالکل بے کا ر گئی ہے اس لئے کہ شکنتلا بالکل الھڑتھی۔ اس کو ایسے معاملوں کے آداب کی کوئی واقفیت ہی نہیں تھی ۔ نذیراک اناڑی تیراک کے ساتھ ادھر ادھر بے کا ر ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ آخر اکتا گیا۔ دروازہ کھول کر اس نے کریم کو آواز دی جو ا پنے ڈربے میں مرغیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آوازسن کر دوڑا آیا۔ “کیا بات ہے نذیر صاحب ؟ “
نذیر نے بڑی ناامیدی سے کہا۔ “کچھ نہیں یار۔ یہ اپنے کام کی نہیں ہے۔”
“کیوں ؟ “
“کُچھ سمجھتی ہی نہیں۔”
کریم نے شکنتلا کو الگ لے جا کر بہت سمجھایا ۔ مگر وہ نہ سمجھ سکی شرمائی ، لجائی ، دھوتی سنبھالتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کریم نے اس پر کہا۔ ” میں ابھی حاضرکرتا ہوں۔”
نذیر نے اس کو روکا۔” جانے دو کوئی اور لے آؤ ۔ لیکن اس نے فورا ہی ارادہ بدل لیا۔” وہ جو تمہیں روپے دیئے تھے، اس کی بوتل لے آؤ اور شکنتلا کے سوا جتنی لڑکیاں اس وقت موجود ہیں انہیں یہاں بھیج دو –––میرا مطلب ہے جو پیتی ہیں۔ آج اور کوئی سلسلہ نہیں ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں گااور بس!“۔
کریم نذیر کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے چار لڑکیاں کمرے میں بھیج دیں ۔ نذیر نے ان سب کو سرسری نظر سے دیکھا کیونکہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ پروگرام صرف پینے کا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ان لڑکیوں کے لئے گلاس منگوائے اور ان کے ساتھ پینا شروع کر دی۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل سے منگوا کر کھایا اور شام کے چھ بجے تک ان لڑکیوں سے باتیں کرتا رہا۔ بڑی فضول قسم کی باتیں، لیکن نذیر خوش تھا۔ جو کوفت شکنتلا نے پیدا کی تھی ۔ دور ہوگئی تھی۔
آدھی بوتل باقی تھی، وہ ساتھ لے کر گھر چلا گیا۔ پندرہ روز کے بعد پھر موسم کی وجہ سے اس کا جی چاہا کہ سارا دن پی جائے ۔ سگرٹ والے کی دکان سے خریدنے کے بجائے اس نے سوچا کیوں نہ کریم سے ملوں، وہ تیس میں لے دیگا۔ چنانچہ وہ اس کے ہوٹل میں پہنچا۔ اتفاق سے کریم مل گیا۔ اس نے ملتے ہی بہت ہولے سے کہا ۔” نذیر صاحب شکنتلا کی بڑی بہن آئی ہوئی ہے۔ آج صبح کی گاڑی سے پہنچی ہے ۔ بہت ہٹیلی ہے۔ مگر آپ اس کو ضرور راضی کر لیں گے۔”
نذیر کچھ سوچ نہ سکا۔ اس نے اپنے دل میں اتنا کہا ” چلو دیکھ لیتے ہیں ۔ لیکن اس نے کریم سے کہا یہ تم پہلے یار وسکی لے آؤ۔” یہ کہہ کر اس نے تیس روپے جیب سے نکال کر کریم کو دیئے۔
کریم نے نوٹ لیکر نذیر سے کہا ” میں لے آتا ہوں۔ آپ اندر کمرے میں بیٹھے۔”
نذیر کے پاس صرف دس روپے تھے، لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھلوا کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ وسکی کی بوتل لے کر ایک نظر شکنتلا کی بہن کو دیکھ کر چل دے گا۔ جاتے وقت دو روپے کریم کو دے دے گا ۔
تین طرف سے کھلے ہوئے ہوا دار کمرے میں نہایت ہی میلی کرسی پر بیٹھ کراس نے سگریٹ سلگایا اور اپنی ٹانگیں رکھ دیں تھوڑی ہی دیر کے بعد آہٹ ہوئی ۔ کریم داخل ہوا۔ اس نے نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کہ ہولے سے کہا۔ “نذیر صاحب آرہی ہے لیکن آپ ہی رام کیجئے گا اسے ۔ “
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک لڑکی جس کی شکل صورت قریب قریب شکنتلا سے ملتی تھی۔ تیوری چڑھائے، شکنتلا کے سے انداز میں سفید دھوتی پہنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بڑی بے پروائی سے اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لے جا کر آداب کیا اور لوہے کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ نذیر نے یوں محسوس کیا کہ وہ اس سے لڑنے آئی ہے ۔ چھ برس پیچھے کے زمانے میں ڈبکی لگا کر وہ اس سےمخاطب ہوا ” آپ شکنتلا کی بہن ہیں۔”
اس نے بڑے تیکھے اور خفگی آمیز لہجے میں کہا۔ ”جی ہاں ۔”
نذیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگیا۔ اس کے بعداس لڑکی کو جس کی عمر شکنتلا سے غالبا تین برس بڑی تھی۔ بڑے غور سے دیکھا ۔ نذیر کی یہ حرکت اس کو بہت نا گوارمحسوس ہوئی۔ وہ بڑے زور سے ٹانگ ہلا کر اس سے مخاطب ہوئی۔ “آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ “
نذیر کے ہونٹوں پر کچھ برس پیچھے کی مسکراہٹ نمودارہوئی ۔” جناب آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں ؟”
وہ برس پڑی ۔ “میں ناراض کیوں نہ ہوں –– یہ آپ کا کریم میری بہن کوجے پور سے اڑا لایا ہے۔ بتایئے آپ ،میرا خون نہیں کھولے گا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو بھی وہ پیش کی گئی تھی ۔”
نذیر کی زندگی میں ایسا معاملہ کبھی نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر سوچ کر اس نے اس لڑ کی سے بڑے خلوص کے ساتھ کہا،”شکنتلا کو دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھاکہ یہ لڑکی میرے کام کی نہیں۔ بہت الھڑ ہے۔ مجھے ایسی لڑکیاں بالکل پسند نہیں ۔ آپ شاید برا مانیں ۔ لیکن حقیقت ہے کہ میں ان عورتوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں جو مرد کی ضروریات کو سمجھتی ہوں۔”
اس نے کچھ نہ کہا۔ “نذیر نے اس سے دریافت کیا۔ “آپ کا نام ۔”
شکنتلا کی بہن نے مختصراً کہا۔ “شاردا”
نذیر نے پھر اس سے پوچھا۔ “آپ کا وطن۔ “
“جے پور ۔”اس کا لہجہ بہت تیکھا اور خفگی آلو د تھا۔
نذیر نے مسکرا کر اس سے کہا ۔” دیکھئے، آپ کو مجھ سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں –– کریم نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو آپ اس کو سزا دے سکتی ہیں، لیکن میرا کوئی قصور نہیں۔ ” یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس کو اچانک اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہ کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ نذیر اس سے مخاطب ہوا “یہ قصور البتہ میرا ہے۔ اس کی سزا میں بھگتنے کے لئے تیار ہوں ۔”
لڑکی کے ماتھے پر بیشمار تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ اس نے تین چار مرتبہ زمین پرتھوکا۔ غالبا ً گالیاں دینے والی تھی، لیکن چپ ہوگئی۔ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ لیکن فوراً ہی بیٹھ گئی۔ نذیر نے چاہا کہ وہ کچھ کہے ۔ “بتائیے ، آپ مجھے کیا سزا دینا چاہتی ہیں۔”
وہ کچھ کہنے والی تھی کہ ڈربے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ لڑ کی اٹھی نذیر نے اُسے روکا۔ کہاں جا رہی ہیں آپ؟”
وہ ایک دم ماں بن گئی۔ “منی رو رہی ہے دودھ کے لئے ” یہ کہہ کر وہ چلی گئی
نذیر نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر کچھ سوچ نہ سکا۔ اتنے میں کریم وسکی کی بوتل اورسوڈے لیکر آ گیا۔ اُس نے نذیر کے لئے چھوٹا ڈالا۔ اپنا گلاس ختم کیا اور نذیر سے رازدارا نہ لہجے میں پوچھا۔ “کچھ باتیں ہوئیں شاردا سے ––میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ نے پٹالیا ہوگا؟”
نذیر نے مسکرا کر جواب دیا۔” بڑی غصيلی عورت ہے !”
” جی ہاں۔ صبح آئی ہے، میری جان کھا گئی ہے۔ آپ ذرا اس کو رام کریں ––شکنتلا خود یہاں آئی تھی۔ اس لئے کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ چکا ہے اور اس شاردا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ اس کا پتی شادی کے فورا بعد ہی اس کوچھوڑ کر خدا معلوم کہاں چلا گیا تھا–– اب اکیلی اپنی بچی کے ساتھ ماں کے پاس رہتی ہے ––آپ منالیجئے نا اس کو ؟”
نذیر نے اس سے کہا ” منانے کی کیا بات ہے ؟ “
کریم نے اس کو آنکھ ماری ۔ “سالی مجھ سے تو مانتی نہیں۔ جب سے آئی ہے۔ڈانٹ رہی ہے۔”
اتنے میں شاردا اپنی ایک سال کی بچی کو گود میں اٹھائے اندر کمرے میں آئی۔ کریم کو اس نے غصے سے دیکھا۔ اس نے آدھا پگ پیا اور باہر چلا گیا۔
منی کو بہت زکام تھا۔ ناک بہت بری طرح بہہ رہی تھی ۔ نذیر نے کریم کو بلایا اور اس کو پانچ کا نوٹ دے کر کہا ۔ “جاؤ، ایک وکس کی بوتل لے آؤ۔”
کریم نے پوچھا ۔ ” وہ کیا ہوتی ہے ؟”
نذیر نے اس سے کہا۔” زکام کی دوا ہے ۔ ” یہ کہہ کر اس نے ایک پرزے پر اس دوا کا نام لکھ دیا۔ “کسی بھی اسٹور سے مل جائے گی ۔”
” جی اچھا ۔” کہہ کر کریم چلا گیا۔ نذیرمنّی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو بچے بہت اچھے لگتے تھے ۔ منّی خوش شکل نہیں تھی۔ لیکن کم سنی کے باعث نذیر کے لئے دلکش تھی ۔ اس نے اس کو گود میں لیا ۔ ماں سے سو نہیں رہی تھی ۔ سر میں ہولے ہولے انگلیاں پھیر کر اس کو سلا دیا اور شاردا سے کہا۔” اس کی ماں تو میں ہوں ۔”
شاردامسکرائی۔” لایئے، میں اس کو اندر چھوڑ آؤں ۔“
شاردا اس کو اندر لے گئی اور چند منٹ کے بعد واپس آ گئی۔ اب اس کے چہرے پر غصے کے آثار نہیں تھے ۔ نذیر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا۔ ” کیا آپ مجھے اپنا پتی بننے کی اجازت دے سکتی ہیں ۔ ” اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ شاردا نے غصے کا اظہار نہ کیا۔ “جواب دیجئے جناب ؟”
شاردا خاموش رہی۔ نذیر نے اٹھ کر ایک پگ پیا ، تو شاردا نے ناک سکوڑ کر اس سے کہا۔ ”مجھے اس چیز سے نفرت ہے ۔“
نذیر نے ایک پگ گلاس میں ڈالا۔ اس میں سوڈ ا حل کر کے اٹھایا اور شاردا کے پاس بیٹھ گیا۔ “آپ کو اس سے نفرت ہے ۔ کیوں ؟”
شاردا نے مختصر سا جواب دیا ” بس ہے۔ “
” تو آج سے نہیں رہے گی –––یہ لیجئے ۔ “یہ کہہ کر اس نے گلاس شاردا کی طرف بڑھا دیا ۔
” میں ہرگز نہیں پیوں گی ۔”
“میں کہتا ہوں ، تم ہرگز انکار نہیں کر و گی ۔ “
شاردا نے گلاس پکڑ لیا۔ تھوڑی دیر تک اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھتی رہی پھر نذیر کی طرف مظلومانہ نگاہوں سے دیکھا۔ اور ناک انگلیوں سے بند کر کے سارا گلاس غٹا غٹ پی گئی۔ قے آنے کو تھی مگر اس نے روک لی۔ دھوتی کے پلّو سے اپنے آنسو پونچھ کر اس نے نذیر سے کہا ، ” یہ پہلی اور آخری بارہے ––– لیکن میں نے کیوں پی ؟ “
نذیر نے اس کے گیلے ہونٹ چومے اور کہا ۔ “یہ مت پُوچھو ۔”یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا ۔
شام کو سات بجے اس نے دروازہ کھولا۔ کریم آیا تو شاردا نظریں جھکائے باہر چلی گئی۔ کریم بہت خوش تھا۔ اس نے نذیر سے کہا۔ “آپ نے کمال کر دیا–––آپ سے سو تو نہیں مانگتا، پچاس دے دیجئے ۔ “
نذیر شاردا سے بے حدمطمئن تھا۔ اس قدرمطمئن کہ وہ گذشتہ تمام عورتوں کو بھول چکا تھا۔ وہ اس کے جنسی سوالات کا سوفیصدی صحیح جواب تھی۔ اس نے کریم سے کہا۔ “میں کل ادا کر دوں گا –––ہوٹل کا کرایہ بھی کل چکاؤں گا ۔ آج میرے پاس وسکی منگانے کے بعد صرف دس روپے باقی تھے ۔”
کریم نے کہا ۔ “یہ کوئی دھندہ نہیں ہے –––میں تو اس بات سے بہت خوش ہوں کہ آپ نے شاردا سے معاملہ طے کرلیا –––حضور ، میری جان کھاگئی تھی۔ اب شکنتلا سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتی ! “
کریم چلا گیا ۔شاردا آئی۔ اس کی گود میں منّی تھی۔ نذیر نے اس کو پانچ روپے دئیے لیکن شاردا نے انکار کردیا۔ اس پر نذیر نے اس سے مسکرا کر کہا ۔” میں اس کا باپ ہوں۔ تم یہ کیا کر رہی ہو ۔ “
شاردا نے روپے لے لئے ۔ بڑی خاموشی کے ساتھ۔ شروع شروع میں وہ بہت باتونی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ باتوں کے دریا بہا دے گی۔ مگر اب وہ بات کرنے سے گریز کرتی تھی۔ نذیر نے اس کی بچی کو گود میں لیکر پیار کیا اور جاتے وقت شاردا سے کہا ۔ “یہ لو بھئی شاردا ، میں چلا۔ کل نہیں تو پرسوں ضرور آؤنگا۔”
لیکن نذیر دوسرے روز ہی آگیا۔ شاردا کے جسمانی خلوص نے اس پر جادو سا کر دیا تھا۔ اس نے کریم کو پچھلے روپیے ادا کئے ۔ ایک بوتل منگوائی اور شاردا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کو پینے کے لئے کہا تو وہ بولی ۔ “میں نے کہہ دیا تھا کہ وہ پہلا اورآخری گلاس تھا ۔”
نذیر اکیلا پیتا رہا ۔ صبح گیارہ بجے سے وہ شام کے سات بجے تک ہوٹل کے اس کمرے میں شاردا کے ساتھ رہا۔جب گھر لوٹا تو وہ بے حد مطمئن تھا پہلے روز سے بھی زیادہ مطمئن شاردا اپنی واجبی شکل وصورت اور کم گوئی کے باوجود اس کے شہوانی حواس پر چھا گئی تھی، نذیر بار بار سوچتا تھا یہ کیسی عورت ہے میں نے اپنی زندگی میں ایسی خاموشی، مگرجسمانی طور پر ایسی پرگو عورت نہیں دیکھی ۔“
نذیر نے ہر دوسرے دن شاردا کے پاس جانا شروع کر دیا۔ اس کو روپئے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نذیر ساٹھ روپے کریم کو دیتا تھا۔دس روپئے ہوٹل والا لے جاتا تھا۔ باقی پچاس میں سے قریب تیرہ روپئے کریم اپنی کمیشن کے وضع کر لیتا تھا۔ مگر شاردا نے اس کے متعلق نذیر سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا ۔
دو مہینے گزر گئے۔ نذیر کے بجٹ نے جواب دے دیا ۔ اس کے علاوہ اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ شاردا اس کی ازدواجی زندگی میں بری طرح حائل ہو رہی ہے ۔ وہ بیوی کے ساتھ سوتا ہے تو اس کو ایک کمی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بجائے شاردا ہو۔ یہ بہت بری بات تھی۔ نذیر کو چونکہ اس کا احساس تھا اس لئے اس نے کوشش کی کہ شاردا کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہو جائے ۔چنانچہ اس نے شاردا ہی سے کہا ۔ “شاردا میں شادی شدہ آدمی ہوں۔ میری جتنی جمع پونجی تھی ختم ہو گئی ہے سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں۔تمہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا ، حالانکہ چاہتا ہوں کہ ادھر کا کبھی رُخ نہ کروں ۔ “
شاردا نے یہ سنا تو خاموش ہوگئی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا۔” جتنے روپے میرے پاس ہیں آپ لے سکتے ہیں۔ صرف مجھے جے پور کا کرا یہ دے دیجئے تاکہ میں شکنتلا کو لے کر واپس چلی جاؤں۔”
نذیر نے اس کا پیار لیا اور کہا ۔ “بکواس نہ کرو –––تم میرا مطلب نہیں سمجھیں ۔بات یہ ہے کہ میرا روپیہ بہت خرچ ہوگیا ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ ختم ہوگیا ہے میں یہ سوچتا ہوں کہ تمہارے پاس کیسے آسکوں گا۔”
شاردا نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیرا یک دوست سے جب قرض لے کر دوسرے روز ہوٹل میں پہنچا تو کریم نے بتا یا کہ وہ جے پور جانے کے لئے تیار بیٹھی ہے ۔ نذیر نے اس کو بلایا۔ مگر وہ نہ آئی ۔ کریم کے ہاتھ اس نے بہت سے نوٹ بھجوائے اور یہ کہا ۔ آپ یہ روپے لے لیجئے اور مجھے اپنا ایڈریس دے دیجئے ۔”
نذیر نے کریم کو اپنا ایڈریس لکھ کر دے دیا اور روپئے واپس کر دیئے۔ شاردا آئی۔ گود میں منی تھی۔ اس نے آداب عرض کیا ، اور کہا ۔” میں آج شام کو جے پورجارہی ہوں۔”
نذیر نے پوچھا۔ ” کیوں؟ “
شاردا نے مختصر جواب دیا۔ “مجھے معلوم نہیں ۔”اور یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
نذیر نے کریم سے کہا کہ اسے بلا کر لائے مگر وہ نہ آئی۔ نذیر چلا گیا۔ اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے بدن کی حرارت چلی گئی ہے ۔ اس کے سوال کا جواب چلا گیا ہے۔
وہ چلی گئی، واقعی چلی گئی۔ کریم کو اس کا بہت افسوس تھا۔ اس نے نذیر سے شکایت کے طور پر کہا۔ ”نذیر صاحب آپ نے کیوں اس کو جانے دیا ؟ “
نذیر نے اس سے کہا۔ ” بھائی، میں کوئی سیٹھ تو ہوں نہیں ––– ہردوسرے روز پچاس ایک، دس ہوٹل کے، تیس بوتل کے اور اوپر کا خرچ علیحدہ ۔ میرا تو دیوالہ پٹ گیا ہے –––خدا کی قسم مقروض ہو گیا ہوں ۔ “
یہ سن کر کریم خاموش ہو گیا۔ نذیر نے اس سے کہا ۔ “بھئی میں مجبور تھا کہاں تک یہ قصہ چلاتا۔“
کریم نے کہا ۔ ” نذیر صاحب اس کو آپ سے محبت تھی ۔”
نذیر کو معلوم نہیں تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے ۔ وہ فقط اتنا جانتا تھا کہ شاردا میں جسمانی خلوص ہے۔ وہ اس کے مردانہ سوالات کا بالکل صحیح جواب ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاردا کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا تھا، البتہ اس نے مختصر الفاظ میں اس سے یہ ضرور کہا تھا کہ اس کا خاوندعیاش تھا اور اس کو صرف اس لئے چھوڑ گیا تھا کہ دو برس تک اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی ۔ لیکن جب وہ اس سے علیحدہ ہوا تو نو مہینے کے بعد منی پیدا ہوئی جو بالکل اپنے باپ پر ہے ۔
شکنتلا کو وہ اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اس کا بیاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ شریفانہ زندگی بسرکرے ۔ کریم نے نذیر کو بتایا تھا کہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ کریم نے بہت کوشش کی تھی کہ شکنتلا سے پیشہ کرائے ۔ کئی پیسنجر آتے تھے۔ ایک رات کے دو دو سو روپے دینے کے لئے تیار تھے ۔ مگر شاردا نہیں مانتی تھی ، کریم سے لڑ نا شروع کر دیتی تھی۔ کریم اس سے کہتا تھا۔ “تم کیا کر رہی ہو؟”وہ جواب دیتی ۔ “اگر تم بیچ میں نہ ہوتے تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔ نذیر صاحب کا ایک پیسہ خرچ نہ ہونے دیتی ۔ “
شاردا نے نذیر سے ایک بار اس کا فوٹو مانگا تھا۔ جو اس نے گھر سے لاکر اس کو دے دیا تھا۔ یہ وہ اپنے ساتھ جے پور لے گئی تھی۔ اس نے نذیر سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ جب دونوں بستر پر لیٹے ہوتے تو وہ بالکل خاموش رہتی ۔ نذیراس کو بولنے پر اکساتا مگر وہ کچھ نہ کہتی لیکن نذیر اس کے جسمانی خلوص کا قائل تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق تھا۔ وہ اخلاص کا مجسمہ تھی۔
وہ چلی گئی ، نذیر کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ کیونکہ وہ اس کی گھریلو زندگی میں بہت بری طرح حائل ہو گئی تھی ۔ اگر وہ کچھ دیر اور رہتی تو بہت ممکن تھا کہ نذیر اپنی بیوی سے بالکل غافل ہو جاتا ۔ کُچھ دن گذرے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آنے لگا۔ شاردا کا جسمانی لمس اس کے جسم سے آہستہ آہستہ دور ہونے لگا۔
ٹھیک پندرہ دن کے بعد جب کہ نذیر گھر میں بیٹھا دفتر کا کام کر رہا تھا۔ اس کی بیوی نے صبح کی ڈاک لا کر اسے دی ۔سارے خط وہی کھو لا کرتی تھی ۔ ایک خط اس نے کھولا اور دیکھ کر نذیر سے کہا معلوم نہیں گجراتی ہے یا ہندی۔“ نذیر نے خط لیکر دیکھا۔ اس کو معلوم نہ ہوسکا کہ ہندی ہے یا گجراتی۔ الگ ٹرے میں رکھ دیا اور اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نذیر کی بیوی نے اپنی چھوٹی بہن نعیمہ کو آواز دی۔ وہ آئی تو وہ خط اٹھا کر اسے دیا۔” ذرا پڑھو تو کیا لکھا ہے۔ تم تو ہندی اور گجراتی پڑھ سکتی ہو۔
نعیمہ نے خط دیکھا اور کہا ۔ ” ہندی ہے “اور یہ کہہ کر پڑھنا شروع کیا۔
“جے پور ــــپرتیے نذیر صاحب۔” اتنا پڑھ کر وہ رک گئی۔ نذیر چونکا۔ نعیمہ نےایک سطر اور پڑھی ۔” آداب آپ تو مجھے بھول چکے ہوں گے مگر جب سے میں یہاں آئی ہوں آپ کو یاد کرتی رہتی ہوں ۔”نعیمہ کا رنگ سرخ ہو گیا ۔ اس نے کاغذکا دوسرا رخ دیکھا کوئی شاردا ہے۔”
نذیر اٹھا ۔جلدی سے اس نے نعیمہ کے ہاتھ سے خط لیا اور اپنی بیوی سے کہا ۔” خدا معلوم کون ہے میں باہر جا رہا ہوں ۔ اس کو پڑھا کراردومیں لکھوا لاؤں گا ۔ اس نے بیوی کو کچھ کہنے کا موقعہ ہی نہ دیا اور چلا گیا۔ ایک دوست کےپاس جا کر اس نے شاردا کے خط جیسے کاغذ منگوائے اور مہندی میں ویسی ہی روشنائی سے ایک خط لکھوایا ۔ پہلے فقرے وہی رکھتے مضمون یہ تھا کہ بمبے سنٹرل پر شاردا اس سے ملی تھی۔ اس کو اتنے بڑے مصور سے مل کر بہت خوشی ہوئی وغیرہ وغیرہ ۔
شام کو گھر آیا تو اس نے نیا خط اپنی بیوی کو دیا اور اردو کی نقل پڑھ کرسنا دی۔ بیوی نے شاردا کے متعلق اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا۔ عرصہ ہو رہے ہیں ایک دوست کو چھوڑنے گیا تھا۔ شاردا کو یہ دوست جانتا تھا، وہاں پلیٹ فارم پر میرا تعارف ہوا۔ مصوری کا اسے بھی شوق تھا ۔
بات آئی گئی ہوگئی لیکن دوسرے روز شاردا کا ایک اور خط آ گیا۔ اس کو بھی نذیر نے اسی طریقے سے گول کیا اور فوراً شاردا کو تار دیا کہ وہ خط لکھنا بند کر دے۔ اور اس کے نئے پتے کا انتظار کرے ۔ ڈاک خانے جا کر اس نے متعلقہ پوسٹ مین کو تاکید کر دی کہ جے پور کا خط وہ اپنے پاس رکھے، صبح آ کر وہ اس سے پوچھ لیاکرے گا۔ تین خط اس نے اس طرح وصول کئے۔ اس کے بعد شاردا اس کو اس کےدوست کے پتے سے خط بھیجنے لگی ۔
شاردا بہت کم گوتھی لیکن خط بہت لمبے لکھتی تھی۔ اس نے نذیر کے سامنے کبھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن خط اس اظہار سے پر ہوتے تھے۔ گلے شکوے ہجر و فراق ، اس قسم کی عام باتیں جو عشقیہ خطوں میں ہوتی ہیں۔ نذیر کو شاردا سے وہ محبت نہیں تھی جس کا ذکرافسانوں اور ناولوں میں ہوتا ہے ، اس لیےاس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جواب میں کیا لکھے، اس لئے یہ کام اس کا دوست ہی کرتا تھا۔ ہندی میں جواب لکھ کر وہ نذیر کو سنا دیتا تھا ، اور نذیر کہہ دیتا تھا ۔” ٹھیک ہے ! “
شاردا بمبئی آنے کے لئے بے قرار تھی لیکن وہ کریم کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ نذیر اس کی رہائش کا اور کہیں بندوبست نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ مکان ان دنوں ملتے ہی نہیں تھے۔ اس نے ہوٹل کا سوچا۔ مگر خیال آیا ، ایسا نہ ہو راز فاش ہو جائے چنانچہ اس نے شاردا کو لکھوایا کہ وہ ابھی کچھ دیر انتظار کرے۔
اتنے میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہوگئے۔ بٹوارے سے پہلے عجیب افراتفری مچی تھی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ وہ لاہور جانا چاہتی ہے ۔” میں کچھ دیر وہاں رہوں گی اگر حالات ٹھیک ہوگئے تو واپس آجاؤں گی، ورنہ آپ بھی وہیں چلے آیئے گا ۔
نذیر نے کچھ دیر اسے روکا۔ مگر جب اس کا بھائی لاہور جانے کے لئے تیار ہوا تو وہ اور اس کی بہن اس کے ساتھ چلی گئیں اور وہ اکیلا رہ گیا۔ اس نے شاردا کو سرسری طور پر لکھا کہ وہ اب اکیلا ہے ۔ جواب میں اس کا تار آیا کہ وہ آ رہی ہے۔ اس تار کے مضمون کے مطابق وہ جےپور سے چل پڑی تھی۔ نذیر بہت سٹپٹایا۔ مگر اس کا جسم بہت خوش تھا ۔ وہ شارداکے جسم کا خلوص چاہتا تھا۔ وہ دن پھر سے مانگتا تھا جب وہ شاردا کے ساتھ چپٹا ہوتا تھا۔ صبح گیارہ بجے سے لیکرشام کے سات بجے تک اب روپئے کے خرچ کا سوال نہیں تھا۔ کریم بھی نہیں تھا ہوٹل بھی نہیں تھا۔ اس نے سو چا ۔ ” میں اپنے نوکر کو راز دار بنالوں گا ۔ سب ٹھیک ہو جائیگا دس پندرہ روپئے اس کا منہ بند کر دیں گے ۔ میری بیوی واپس آئی تو وہ اس سے کچھ نہیں کہے گا۔”
دوسرے روز وہ اسٹیشن پہنچا۔ فرنٹیئر میل آئی مگر شاردا تلاش کے باوجود اسے نہ ملی ۔ اس نے سوچاشایدکسی وجہ سے رک گئی ہے۔ دوسرا تار بھیجے گی ۔
اس سے اگلے روز وہ حسب معمول صبح کی ٹرین سے اپنے دفتر روانہ ہوا ۔ وہ مہا لکشمی اتر تا تھا گاڑی وہاں روکی تو اس نے دیکھا پلیٹ فارم پر شاردا کھڑی ہے۔ اس نے زور سے پکارا ۔ ” شاردا ! “۔
شاردا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔”نذیر صاحب!”۔
” تم یہاں کہاں ؟ “
شاردا نے شیکایتاً کہا ۔ ” آپ مجھے لینے نہ آئے تو میں یہاں آپ کے دفتر پہنچی پتا چلا کہ ابھی آپ نہیں آئے۔ یہاں پلیٹ فارم پر اب آپ کا انتظار کر رہی تھی۔”
نذیر نے کچھ دیر سوچ کر اس سے کہا تم یہاں ٹھہرو۔ میں دفتر سے چھٹی لیکر ابھی آتا ہوں۔
شار دا کوبنچ پر بٹھا کر نذیر جلدی جلدی دفتر گیا۔ ایک عرضی لکھ کر وہاں چپراسی کو دے آیا اور شاردا کو اپنے گھر لے گیا ۔ راستے میں دونوں نے کوئی بات نہ کی ، لیکن ان کے جسم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی طرف کھنچتے رہے۔ گھر پہنچ کر نذیر نے شاردا سے کہا۔ “تم نہا لو میں ناشتے کا بندوبست کرا تا ہوں ۔”
شاردا نہانے لگی ۔ نذیر نے نوکر سے کہا کہ اس کے ایک دوست کی بیوی آئی ہے جلدی ناشتہ تیا ر کر دے ۔ اس سے یہ کہہ کہ نذیر نے الماری سے بوتل نکالی۔ ایک پگ جو دو کے برابر تھا گلاس میں انڈیلا اور پانی میں ملا کر پی گیا ۔ وہ اسی ہوٹل والے ڈھنگ سے شاردا سے اختلاط چاہتا تھا ۔
شاردا نہا دهو کر با ہر نکلی اور ناشتہ کرنے لگی ۔ اس نے ادھر ادھر کی بیشمار باتیں کیں۔ نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بدل گئی ہے۔ وہ پہلے بہت کم گو تھی ۔ اکثر خاموش رہتی تھی مگر اب وہ بات بات پر اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی نذیر نے سوچا ۔ محبت کیا ہے ۔ اگر یہ اس کا اظہار نہ کرے تو کتنا اچھا ہے مجھے اس کی خاموشی زیادہ پسند تھی، اس کے ذریعے سے مجھ تک بہت سی باتیں پہنچ جاتی تھیں، مگر اب اس کو جانے کیا ہو گیا ہے ۔ باتیں کرتی ہے تو ایسا معلوم ہوتاہے اپنےعشقیہ خط پڑھ کر سنا رہی ہے ۔”
ناشتہ ختم ہوا تو نذیر نے ایک پگ تیار کیا اور شاردا کو پیش کیا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ نذیر نے اصرار کیا تو شاردا نے اس کو خوش کرنے کی خاطر ناک بند کر کے وہ پگ پی لیا۔ برا سا منہ بنایا۔ پانی لے کر کلی کی نذیر کو افسوس سا ہوا کہ شاردانے کیوں پی ، اس کے اصرار پر بھی انکار کیا ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔ مگر اس نے اس کے بارے میں زیادہ غور نہ کیا ۔ نوکر کو بہت دور ایک کام پر بھیجا، دروازہ بند کیا اور شاردا کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا” تم نے لکھا تھا کہ وہ دن پھر کب آئیں گے ، لو آ گئے ہیں پھر وہی دن ، بلکہ راتیں بھی۔ ان دنوں راتیں نہیں ہوتی تھیں صرف دن ہوتے تھے ۔ ہوٹل کے میلے کچیلے دن یہاں ہر چیز اُجلی ہے۔ ہر چیز صاف ہے ۔ ہوٹل کا کرا یہ بھی نہیں۔ کریم بھی نہیں ۔ یہاں ہم اپنے مالک آپ ہیں ۔
شاردا نے اپنے فراق کی باتیں شروع کر دیں ۔ یہ زما نہ اس نے کیسے کاٹا۔ وہی کتابوں اور افسانوں والی فضول فضول باتیں گلے شکوے، آہیں۔ راتیں تارے گن گن کر کاٹنا۔ نذیر نے ایک اور پگ پیا اور سوچا “کون تارے گنتا ہے ۔ گن کیسے سکتا ہے اتنے سارے تاروں کو ۔ بالکل فضول ہے، بے ہودہ بکواس ہے ۔”
یہ سوچتے ہوئے اس نے شاردا کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ بستر صاف تھا۔ شاردا صاف تھی۔ وہ خود صاف تھا۔ کمرے کی فضا بھی صاف تھی۔ لیکن کیا وجہ تھی، نذیر کے دل و دماغ پر وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی جو اس غلیظ ہوٹل میں لوہے کی چارپائی پر شاردا کی قربت میں ہوتی تھی۔
نذیر نے سوچا شاید اُس نےکم پی ہے ۔ اٹھ کر اس نے ایک پگ بنایا اور ایک ہی جرعے میں ختم کر کے شارداکے ساتھ لیٹ گیا۔ شاردانے پھر وہی لاکھ مرتبہ کہی ہوئی باتیں شروع کر دیں۔ وہی ہجر و فراق کی باتیں۔ وہی گلے شکوے ۔ نذیر اکتا گیا اور اس اکتاہٹ نے اس کے جسم کو کند کر دیا۔ اس کو محسوس ہونے لگا کہ شارداکی سان گھس کر بیکار ہوگئی ہے اس کے جسم کے جذبات اب وہ تیز نہیں کرسکتی لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ دیر تک لیٹا رہا ۔
فارغ ہوا تو اس کا جی چاہا کرٹیکسی پکڑے اوراپنے گھر چلا جائے، اپنی بیوی کے پاس مگر جب اس نے سوچا کہ وہ تو اپنے گھر میں ہے اور اس کی بیوی لاہور۔تو دل ہی دل میں بہت جھنجھلا یا ۔ اس کو یہ خواہش ہوئی کہ اس کا گھر ہوٹل بن جائے۔ وہ دس روپیے کرائے کے دے۔ کریم کو پچاس روپے ادا کرے اور چلا جائے ۔
شاردا کے جسم کا خلوص بدستور برقرار تھا ، مگر وہ فضا نہیں تھی۔ سودے بازی نہیں تھی۔ اس ہاتھ دے اس ہا تھ لے والی بات نہیں تھی ––ہوٹل کی وہ غلاظت نہیں تھی۔ یہ سب چیزیں مل ملا کر جو ایک ماحول بناتی تھیں۔ وہ نہیں تھا۔ نذیر اپنے گھر میں تھا۔ اس بستر پر تھا جس پر اس کی سادہ لوح بیوی اس کے ساتھ سوتی تھی۔ یہ احساس اس کے تحت الشعور میں تھا اسی لئے وہ سمجھ نہ سکتا تھا کہ معاملہ کیا ہے کبھی وہ یہ سوچتا کہ وسکی خراب ہے۔ کبھی یہ سوچتا کہ شاردا نے التفات نہیں برتا۔ اور کبھی یہ خیال کرتا تھا کہ وہ خاموش رہتی توسب ٹھیک ہوتا ۔ پھروہ یہ سوچتا، اتنی دیر کے بعد ملی ہے۔ دل کی بھڑاس تو نکالنا تھی بے چاری کو۔ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی وہی پرانی شاردا بن جائے گی ۔
پندرہ دن گزر گئے مگر نذیر کو شاردا ، وہ پرانی ہوٹل والی شاردا نہ محسوس ہوئی۔ اس کی بچی جےپور میں تھی، ہوٹل میں وہ اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ نذیر اس کے زکام کے لئے اس کی پھنسیوں کے لئے ، اس کے گلے کے لئے دوائیں منگوایا کرتا تھا اب یہ چیز نہیں تھی۔ وہ بالکل اکیلی تھی ۔ نذیر اس کو اور اسکی منی کو بالکل ایک سمجھتا تھا۔
ایک با ر شاردا کی دودھ سے بھری ہوئی چھاتیوں پر دباؤ ڈالنے کے باعث نذیر کے بالوں بھرے سینے پر دودھ کے کئی قطرے چمٹ گئے تھے ۔ اور اس نے ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی تھی ۔ اس نے سوچا تھا ، ماں بننا کتنا اچّھاہے ––اور یہ دودھ۔ مردوں میں کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں ––کسی کو پالنا ۔ اپنے بچے ہی کو سہی کتنی شاندار چیز ہے۔
اب منی شاردا کے ساتھ نہیں تھی وہ نامکمل تھی۔ اس کی چھاتیاں بھی نامکمل اب ان میں دودھ نہیں تھا۔ وہ سفید سفید آب حیات ۔ نذیر اب اس کو اپنے سینے کے ساتھ کھینچتا تھا تو وہ اس کو منع نہیں کرتی تھی۔ شاردا ، اب وہ شاردا نہیں تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاردا وہی شاردا تھی، بلکہ اس سے کچھ زیادہ تھی۔ یعنی اتنی دیر جُدا رہنے کے بعد اس کا جسمانی خلوص تیز ہو گیا تھا۔ وہ روحانی طور پربھی نذیر کو چاہتی تھی لیکن نذیر کو ایسا محسوس ہوتا کہ شاردا میں اب وہ پہلی سی کشش یا جو بھی کچھ تھا نہیں رہا۔
پندرہ دن لگا تا ر اس کے ساتھ گزارنے پر وہ اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔پندرہ دن دفتر سے غیر حاضری بہت کافی تھی۔ اس نے اب دفتر جانا شروع کر دیا۔ صبح اٹھ کر دفتر جاتا اور شام کو لوٹتا۔ شاردانے بالکل بیویوں کی طرح اس کی خدمت شروع کردی۔ بازار سے اون خرید کر اس کے لئے ایک سویٹر بن دیا۔ شام کو دفتر سے آتا تو اس کے لئے سوڈے منگوا کر رکھے ہوتے۔ برف، تھرموس میں ڈالی ہوتی ۔ صبح اٹھ کر اس کا شیو کا سامان میز پر رکھتی۔ پانی گرم کرا کے اس کو دیتی۔ وہ شیو کر کے گیا تو سارا سامان صاف کر تی ۔ گھر کی صفائی کراتی خود جھاڑو دیتی، نذیر اور بھی زیادہ اُکتا گیا۔
رات کو وہ اکھٹے سوتے تھے ۔ مگر اب اس نے یہ بہانہ کیا کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے اس لئے اکیلا سونا چاہتا ہے۔ شاردا دوسرے پلنگ پر سونے لگی۔ مگر یہ نذیر کے لئے ایک اور الجھن ہوگئی۔ وہ گہری نیند سوئی ہوتی اور وہ جاگتا رہتا۔ اور سوچتا کہ آخر یہ سب کچھ ہے کیا۔ یہ شاردا یہاں کیوں ہے ؟ –– کریم کے ہوٹل میں اس نے اس کے ساتھ چند دن بڑے اچھے گزارے تھے، مگر یہ اس کے ساتھ کیوں چمٹ گئی ہے۔ آخر اس کا انجام کیا ہوگا––محبت وغیرہ سب بکواس ہے جو ایک چھوٹی سی بات تھی وہ اب نہیں رہی ۔ اس کو واپس جےپور جانا چاہیئے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس نے محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ گناہ کر رہا ہے وہ کریم کے ہوٹل میں بھی کرتا تھا ۔ اس نے شادی سے پہلے بھی ایسے بے شمار گناہ کیے تھے مگر ان کا اس کو احساس ہی نہیں تھا لیکن اب اس نے بڑی شدت سے محسوس کر نا شروع کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بے وفائی کر رہا ہے ۔ اپنی سادہ لوح بیوی جس کو اس نے کئی بار شاردا کے خطوں کے سلسلے چکما دیا تھا۔ شاردا اب اور بھی زیادہ بے کشش ہو گئی۔ وہ اس سے روکھا برتاؤ کرنے لگا، مگر اس کے التفات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اتنا جانتی تھی کہ آرٹسٹ لوگ موجی ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ اس سے اس کی بے التفاتی کا گلہ نہیں کرتی تھی ۔
پورا ایک مہینہ ہو گیا جب نذیر نے دن گنے تو اس کو بہت الجھن ہوئی ۔ یہ عورت کیا پورا ایک مہینہ یہاں رہی ہے ––میں کس قدر ذلیل آدمی ہوں ––اور ادھر ہر روز میں اپنی بیوی کوخط لکھتا ہوں جیسے بڑا وفا دار شوہر ہو––جیسے مجھے اس کا بہت خیال ہے ۔ جیسے اس کے بغیر میری زندگی اجیرن ہے میں کتنا بڑا فراڈ ہوں۔ ادھر اپنی بیوی سے غداری کر رہا ہوں ادھر شاردا سے۔ میں کیوں اس سے صاف صاف نہیں کہہ دیتا کہ بھئی اب مجھے تم سے لگا ؤ نہیں رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے لگاؤ نہیں رہا ، یا شاردا میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی؟
وہ اس کے متعلق سوچا۔ مگر اسے کوئی جواب نہ ملا ۔ اس کے ذہن میں عجیب افرا تفری پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اب اخلاقیات کے متعلق سوچتا تھا۔ بیوی سے جو وہ غداری کر رہا تھا ، اس کا احساس ہر وقت اس پر غالب رہتا تھا۔ کچھ دن اور گذرے تو یہ احساس اور بھی زیادہ شدید ہوگیا۔ اور نذیر کو خود سے نفرت ہونے لگی۔ میں بہت ذلیل ہوں۔ یہ عورت میری دوسری بیوی کیوں بن گئی ہے ۔ مجھے اس کی کب ضرورت تھی۔ یہ کیوں میرے ساتھ چپک گئی ہے۔ میں نے کیوں اس کو یہاں آنے کی اجازت دی جب اس نے تاریھیجا تھا لیکن وہ تارایسے وقت پر ملا تھا کہ میں اس کو روک نہیں سکتا تھا۔
پھر وہ سوچا کہ شا ردا جو کچھ کرتی ہے، بناوٹ ہے ۔ وہ اس کو اس بناوٹ سے اپنی بیوی سے جدا کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے اس کی نظروں میں شاردا اور بھی گر گئی۔ اس سے نذیر کا سلوک اور زیادہ روکھا ہو گیا ۔ اس روکھے پن کو دیکھ کر شاردا بہت زیادہ ملائم ہوگئی ۔ اس نے نذیر کے آرام و آسائش کا زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا لیکن نذیر کو اس کے اس رویئے سے بہت الجھن ہوئی۔ وہ اس سے بے حد نفرت کرنے لگا ۔
ایک دن اس کی جیب خالی تھی۔ بینک سے روپے نکلوانے اس کو یاد نہیں رہے تھے۔ دفتر بہت دیر سے گیا ، اس لئے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔ جاتے وقت شار د انے اس سے کچھ کہا تو وہ اس پر برس پڑا بکواس نہ کرو ۔ میں ٹھیک ہوں ۔ بینک سے روپے نکلوانے بھول گیا ہوں اور سگریٹ میرے سارے ختم ہیں۔
دفتر کے پاس کی دکان سے اس کو گو لڈفلیک کا ڈبہ ملا۔ یہ سگریٹ اس کو ناپسند تھا مگرا دھار مل گئے تھے۔ اس لئے دو تین محبور اًپینے پڑے ۔ شام کو گھر آیا تو دیکھا تپائی پر اس کا من بھاتا سگریٹ کا ڈبہ پڑا ہے۔ خیال کیا کہ خا لی ہے۔ پھر سوچا شاید ایک دو اس میں پڑے ہوں ۔ کھول کر دیکھا تو بھرا ہواتھا۔ شاردا سے پوچھا ۔” یہ ڈبہ کہاں سے آیا ؟ “
شار دانے مسکرا کر جواب دیا۔” اندر الماری میں پڑا تھا۔ “
نذیر نے کچھ نہ کہا۔ اس نے سوچا شاید میں نے کھول کر اندر الماری میں رکھ دیا تھا اور بھول گیا۔ لیکن دوسرے دن پھر تپائی پر سالم ڈبہ موجود تھا۔ نذیر نے جب شاردا سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اندر الماری میں پڑا تھا ۔ “
نذیر نے بڑے غصے کے ساتھ کہا ۔ ” شاردا، تم بکواس کر تی ہو ۔ تمہاری یہ حرکت مجھے پسند نہیں ۔ میں اپنی چیزیں خود خرید سکتا ہوں۔ میں بھکاری نہیں ہوں جوتم میرے لئے ہرر وز سگریٹ خریدا کرو۔”
شاردانے بڑے پیار سے کہا۔ آپ بھول جاتے ہیں اسی لئے میں نے د و مرتبہ گستاخی کی۔”
نذیر نے بے وجہ اور زیادہ غصے سے کہا ” میرا دماغ خراب ہے –– لیکن مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں ۔”
شاردا کا لہجہ بہت ہی ملائم ہو گیا ۔ “میں آپ سے معافی مانگتی ہوں ۔ “
نذیر نے ایک لحظے کے لئے خیال کیا کہ شاردا کی کوئی غلطی نہیں ۔ اسے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لینا چاہیے اس لیے کہ وہ اس کا اتنا خیال رکھتی تھی ۔ مگر فوراً ہی اس کو اپنی بیوی کا خیال آیا کہ وہ غداری کر رہا تھا ، چنانچہ اس نے شاردا سے بڑے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ بکواس نہ کرو۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں کل یہاں سے روانہ کر دوں۔ کل صبح تمہیں جتنے روپے درکار ہوں گے دے دوں گا ۔ لیکن یہ کہہ کر نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بڑا کمینہ اور رذیل ہے ۔
شاردانے کچھ نہ کہا۔ رات کو وہ نذیر کے ساتھ سوئی۔ ساری رات اس سے پیار کرتی رہی ۔ نذیر کو اس سے الجھن ہوتی رہی مگر اس نے شاردا پراس کا اظہار نہ کیا۔ صبح اٹھا تو ناشتے پر بےشمار لذیذ چیزیں تھیں۔ پھر بھی اس نے شارداسے کوئی بات نہ کی۔ فارغ ہو کر وہ سیدھا بنک گیا۔ جانے سے پہلے اس نے شاردا سے صرف اتنا کہا۔ “میں بنک جا رہا ہوں۔ ابھی واپس آتاہوں۔”
بنک کی وہ شاخ جس میں نذیر کا روپیہ جمع تھا بالکل نز دیک تھا۔ وہ دوسو روپےنکلوا کر فوراً ہی واپس آ گیا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ سب روپیہ شاردا کے حوالے کر دے گا اور اس کو ٹکٹ وغیرہ لے کر رخصت کر دے گا۔ مگر وہ جب گھر پہنچا تو اس کے نو کرنے بتا یا کہ وہ چلی گئی ہے۔ اس نے پوچھا “کہاں ؟ “
نوکر نے بتایا ” جی مجھ سے انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اپنا ٹرنک اور بستر ساتھ لے گئی ہیں !”۔
نذیر اندر کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ تپائی پراس کے پسندیدہ سگرٹوں کا ڈبہ پڑا ہے۔ بھرا ہوا !۔
تاریخ 31 جولائی 1950