افسانہ “شاردا” سعادت حسن منٹو کا افسانوی مجموعہ “ٹھنڈا گوشت” میں شامل آٹھواں اور آخری افسانہ ہے، جو 31جولائی 1950ءکو لکھا گیا۔ آپ اس خلاصہ کو پڑھنے کے بجائے سن بھی سکتے ہیں۔
اس افسانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ” نذیر بلیک مارکٹ سے وسکی کی بوتل لانے گیا۔ بڑے ڈاک خانے سے کچھ آگے بندرگاہ کے پھاٹک سے کُچھ اُدھر سگریٹ والے کی دکان سے اس کو اسکو چ مناسب داموں پر مل جاتی تھی۔ “۔
اور اس کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے” نذیر اندر کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ تپائی پراس کے پسندیدہ سگرٹوں کا ڈبہ پڑا ہے۔ بھرا ہوا !”۔
نچوڑ
سعادت حسن منٹو نے اس افسانہ “شاردا” میں واقعات کو انتہائی سلیقہ مندی سے ترتیب دیا ہے کہ اس کی معنوی تہہ داریاں ایک کے بعد ایک کھل کر قاری کے سامنے آتی ہیں، افسانہ نگار نے دکھایا ہے کہ شاردا ماں، بہن، داشتہ اور بیوی کا کردار بخوبی نبھاتی ہے، اس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ لیکن مرد کو عورت کو ایک ہی رول میں دیکھنے کی عادت ہے۔ دونوں کی نفسیات کو بہتر طریقہ پر ابھارنے کی کوشش کیا ہے۔
خلاصہ
افسانہ شاردا نذیر اور کریم کے ملاقات سے شروع ہوتا ہے وہ نذیر کو بلاکر اپنے ڈربے میں لے جاتا ہے اور نذیر کو شکنتلا پیش کرتا ہے لیکن بات نہیں بنتی ہے تو دوسری چار لڑکیوں کے ساتھ شراب نوش کرے شام سات بجے تک محوِ گفتگو رہتا ہے، پھر پندرہ روز بعد سارے دن پینے کا جی چاہاتو کریم کی یاد آئی ۔ اس سے آکر ملا تو اس نے شکنتلا کی بہن شاردا کا ذکر کیا۔
وہ ایک بچہ کی ماں ہے جو جے پور سے اپنی چھوٹی بہن شکنتلا کو لینے بمبئی آئی ہےتاکہ جے پور لے جاکر اس کی شادی کرے، شاردا کا شوہر اور ان کا باپ دونوں نالائق اور نکمّے ثابت ہوتے ہیں۔ شاردا نہ خود اس پیشہ میں آنا نہیں چاہتی ہے نہ اپنی بہن کو اس میں ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن نذیر شارداسے مل کر جسمانی خلوص سے محظوظ ہوتا ہے اور اس کے دل میں بھی نذیر کے لیے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ نذیر روز بروز اس کا گرویدہ ہوتا جاتا ہےیہاں تک کہ ازدواجی زندگی میں خلل تک آنے لگتا ہے تب ہی شاردا اپنی بہن اور بچی منّی کے ساتھ جے پور چلی جاتی ہے اور نذیر کا پتہ بھی لے جاتی ہے جس پر لمبالمبا خط لکھنا شروع کرتی ہے ۔ پہلا خط ہی نذیر کی بیوی کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور اس کی سالی نعیمہ سے وہ خط پڑھواتی ہے تو شاردا کا نام سنتے ہیں نذیر خط کو گول مال کر دیتا ہے۔ اسی طرح کئی خط کے سلسلے میں چکما دیتا ہے۔
تب ہی فرقہ وارانہ فساد شروع ہوتا ہے اور نذیر کی بیوی اپنے بھائی اوربہن کے ساتھ پاکستان چلی جاتی ہے تو شاردا جے پور سے آکر فلیٹ میں رہنے لگتی ہے۔ اب وہ بیوی اور گھریلوعورت بن جاتی ہے، یہیں سے افسانہ پلٹ جاتا ہے۔ شاردا نذیر کے لیے سوئیٹر بنتی ہے، سوڈے منگوا کر رکھتی ہے ،شیو کا سامان میز پر رکھتی ہے، پانی گرم کراکے دیتی ہے، گھر کی صفائی کرتی ہے تو نذیر کو وہ گندا ہوٹل یاد آتا ہے جہاں وہ شاردا سے مل کر خوش رہا کرتا تھا۔ وہاں شاردا کی بچی منّی ساتھ ہوتی جس سے وہ کھیلتا، وہ سوچتا اب وہ بدل گئی ہے ، بے معنی باتیں کیا کرتی۔ پہلے نذیر کو گناہ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ محسوس کرتا تھا کہ اپنی بیوی سے بے وفائی کر رہا ہے۔ ادھر شاردا سے وہ اکتا گیاتھا، لیکن وہ کہہ نہیں سکتا تھا ۔ وہ سوچتا تھا کیا اسے لگاؤ نہیں رہا یاشاردا میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی، یہ عورت میری بیوی کیوں بن گئی ہے۔ نذیر کو خود سے نفرت ہونے لگی ۔ بالآخر وہ شارداسے دل کی بات کہتا ہے اور شاردا چلی جاتی ہے لیکن تِپائی پر اس کی پسندیدہ سگریٹوں کا ڈبّہ خرید کر رکھ جاتی ہے جو اس کی محبت کی نشانی ہے ۔
افسانہ کے کردار
نذیر(مصور)
کریم (دلال)
شکنتلا
شاردا
منّی (شاردا کی بیٹی)
نذیر کی بیوی
نعیمہ (نذیر کی سالی)
اہم نکات
شادی سے پہلے ایک کریم نذیر کے لئے اچھی اچھی لڑکیاں لایا کرتاتھا
کریم کا کمرہ میرینا ہوٹل کی چوتھی منزل پر تھاجس میں دس چھوکری تھیں
پہلی منزل پر کرسچین آباد تھے۔ دوسری منزل پر جہاز کے بے شمار خلاصی۔ تیسری منزل ہوٹل کے مالک کے پاس تھی۔ چوتھی منزل پر کونے کا ایک کمرہ کریم کے پاس تھا جس میں کئی لڑکیاں مرغیوں کی طرح اپنے ڈربے میں بیٹھی تھیں۔
شکنتلا کی عمر لگ بھگ چودہ برس تھی۔
شارداشکنتلا سے غالبا تین برس بڑی تھی۔
نذیر ساٹھ روپے کریم کو دیتا تھا۔دس روپئے ہوٹل والا لے جاتا تھا۔ باقی پچاس میں سے قریب تیرہ روپئے کریم اپنی کمیشن کے وضع کر لیتا تھا۔
نذیر کی بیوی اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ لاہور چلی گئی
اہم اقتباس
“موسم دیکھ کتنا اچھا ہے۔” پھر وہ اسے وہ بھونڈا سا شعر سنائے گا ؎۔
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گناہ کیجئے ثواب ہے آج
“یہ بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا کیا جائے۔ سالا ہوٹل کا مالک ہی بنیا ہے۔ ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ اور نذیر صاحب موج شوق کرنے والے آدمی بھی زیادہ کی پروا نہیں کرتے ۔”
تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی شرمیلی لڑکی تھی۔ گھریلو قسم کی ہندولڑ کی سفید دھوتی باندھے تھی۔ عمر چودہ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ خوش شکل تو نہیں تھی لیکن بھولی بھالی تھی۔
وہ شکنتلا جس پہ راجہ دشینت شکار کھیلتے کھیلتے عاشق ہوا تھا۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ کم از کم کتابوں میں تو یہی درج تھا کہ وہ چندے آفتاب چندے مہتاب تھی۔ آہو چشم تھی۔
اس کو بچے بہت اچھے لگتے تھے ۔ منّی خوش شکل نہیں تھی۔ لیکن کم سنی کے باعث نذیر کے لئے دلکش تھی ۔ اس نے اس کو گود میں لیا ۔ ماں سے سو نہیں رہی تھی ۔
” بھائی، میں کوئی سیٹھ تو ہوں نہیں ––– ہردوسرے روز پچاس ایک، دس ہوٹل کے، تیس بوتل کے اور اوپر کا خرچ علیحدہ ۔ میرا تو دیوالہ پٹ گیا ہے –––خدا کی قسم مقروض ہو گیا ہوں ۔ “
محبت کیا ہے ۔ اگر یہ اس کا اظہار نہ کرے تو کتنا اچھا ہے مجھے اس کی خاموشی زیادہ پسند تھی، اس کے ذریعے سے مجھ تک بہت سی باتیں پہنچ جاتی تھیں، مگر اب اس کو جانے کیا ہو گیا ہے ۔ باتیں کرتی ہے تو ایسا معلوم ہوتاہے اپنےعشقیہ خط پڑھ کر سنا رہی ہے ۔”
وہی کتابوں اور افسانوں والی فضول فضول باتیں گلے شکوے، آہیں۔ راتیں تارے گن گن کر کاٹنا۔ نذیر نے ایک اور پگ پیا اور سوچا “کون تارے گنتا ہے ۔ گن کیسے سکتا ہے اتنے سارے تاروں کو ۔ بالکل فضول ہے، بے ہودہ بکواس ہے ۔”
ماں بننا کتنا اچّھاہے ––اور یہ دودھ۔ مردوں میں کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں ––کسی کو پالنا ۔ اپنے بچے ہی کو سہی کتنی شاندار چیز ہے۔
میں کس قدر ذلیل آدمی ہوں ––اور ادھر ہر روز میں اپنی بیوی کوخط لکھتا ہوں جیسے بڑا وفا دار شوہر ہو––جیسے مجھے اس کا بہت خیال ہے ۔ جیسے اس کے بغیر میری زندگی اجیرن ہے میں کتنا بڑا فراڈ ہوں۔
میں بہت ذلیل ہوں۔ یہ عورت میری دوسری بیوی کیوں بن گئی ہے ۔ مجھے اس کی کب ضرورت تھی۔ یہ کیوں میرے ساتھ چپک گئی ہے۔ میں نے کیوں اس کو یہاں آنے کی اجازت دی جب اس نے تاریھیجا تھا