Kulliyat-e-Shaad ki radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazlen

کلیاتِ شاد

ردیف "الف" کی ابتدائی پانچ غزلیں
KULLIYAT-E-SHAAD ki radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazlen

پہلی غزل

یہ غزل دس اشعار پر مشتمل ہے، یہ حمدیہ غزل ہے، اس غزل میں اشعار کا پہلا یا دوسرا مصرع عربی زبان میں ہے۔

میکدے میں تو ہے یکتا ساقیا
انّما اللہ اِلٰہاًواحِدَا
کَم محِبّ لا یَریٰ شیئاً سِوَاک
جن کے آگے لفظ مہمل ماسوا
کم عطاشِ دیدہ شاں برکفت
انت ساقیہم و خیر ساقیا
انتبہ یا قلب و شرب جرعۃ
من صبوحی ولالاً طیبا
انما الافراح میرمیراث الہموم
صبر تلخ اما بود حبّ شفا
سچ تو یوں ہے ظلمۃ فی ظلمۃ
جب نہ خود سمجھا تجھے سمجھاؤں کیا
کم لک الساقی من القلبِ الکبیر
جن کے ہیں بشکستہ دل صرف ثنا
لا ابالی او بری اور اقبلی
تجھ سے اے دنیا نہیں مجھ کو گلا
فاح نشر الورد من بستانہم
عطر آگیں کیوں نہ ہو ارض و سما
استمع یا شاد یا شیخ الکبیر
عمر کو فانی سمجھ دھوکا نہ کھا

دوسری غزل

یہ غزل اڑتیس اشعار پر مشتمل ہے۔یہ حمدیہ و دعائیہ غزل ہے۔

نہ پہونچا کوئی تا مقصود سُبحَانِ الّذِی اَسرا

کھلا آئینہ دارلو کَشفَ پر سرَّ ما اَوحا

مجھے بھی تو بنا دے راز دار علّم الاسما

خدایا ! داورا! ھَیَّ لَنَامِن اَمرنَا رُشدَا

کہوں کیا مجمع الضدین ہے دنیا و مافیھا

نہ ظاہر ہے، نہ مخفی ہے، نہ پیدا ہے، نہ ناپیدا

قدم رکھتے گھِرا بحرِ فنا ک سخت طوفاں میں

بچالے اس امید ب کساں اے دافع البلوا

حیاتِ جاوداں میں فرق بھی آئے تو آنی ہو

مٹوں اور پھر ہوں دریائے ہستی میں حباب آسا

جو قطر کی طرح اس بحر بے پایاں میں مل جاؤں

تو چلّاؤں کہ بسم اللہ مجریھا و مرسٰھا

وہ دولت د کہ ان آنکھوں میں سب کچھ ہیچ ہوجائ

خطا پوشا! عطا پاشا، کرم سازا ! خداوندا

وجود اعتباری کو لگاؤں کچھ نہ آنکھوں میں

ہٹا دے عشق و حسن ظاہری کا بیچ سے پردا

بصیرت کو مری معراج ہو صدقے میں احمد کے

کسی دن مجھ پہ بھی کھل جائے گا اسرار مَا اَوحَا

مٹادے دل سے وحشت زمرہ انساں میں داخل کر

قُواسے سب وہی لوں کام جو مقصود ہے تیرا

ہیولیٰ کو مرے وہ موقلم 1؎یا رب عنایت کر

اتارے صفحہ خالی پہ تیرا ہو بہ ہو نقشا

مرے شعروں میں یا رب شاہد معنی کا جلوہ ہو

مگر حائل رہے لفظوں کا بھی ہلکا سا اک پردا

خریدار و بضاعت گو مری مرجات ہے لیکن

تردّد کیا خریداری میں ہے بے دام کا سودا

زباان دانوں گہر بھی ہے خزف چشم تعنت میں

ہنر ہے جہل سے بدتر جو داغ آیا تعصّب کا

نواسنجو! مرے نغموں کا غل ہے عرش اعظم پر

خوش آوازو! سر طوبیٰ پہ جاتا ہے مرا نالا

ہمارا خانوادہ مرکز اردو تھا دہلی میں

بحمداللہ گئی ہم سے نہ اب تک خصلت ِ آبا

نواسا خان صادق کا ہوں جو تھا نائب سلطاں

ہوں کمبل پوش سیّد خاں دوراں خاں کا ہوں پوتا

تعارف کے لیے اتنا بھی لکھا منصفو ورنہ

خدا کی مجھ پہ لعنت ہو اگر کچھ بھی ہو فخر اس کا

اٹھاؤں کیا سر اپنا سیہ کاری میں کائی ہے

نسب پر کچھ ہے غرّہ اور نہ علم و فضل کا دعوا

وہی پیدا ہے ایسا جس سے ہر ناپیدپیدا ہے

مسلّم ہے کہ ناپیداسے کچھ ہوتا نہیں پیدا

بری حال و محل سے بھی ہے پھرسب میں وہی وہ ہے

وہ ہے واحد، شمار اعداد میں اس کا نہیں اصلا

محیطِ کل کے معنی ظاہری گرلیں تو باطل ہے

حدوں سے ہے مبرّا، حد کے اندر آ نہیں سکتا

وجود اس کا ہے واجب، عقل و وجداں اس پہ ہیں شاہد

 اتنا سمجھنے کے نہ میں سمجھا نہ تو سمجھا

کوئی شئے اس سے باہر کب ہے، ہر شئے میں وہی وہ ہے

اسی پر متفق دونوں ہیں، نابینا ہو یا بینا

یہ حسرت ہے کہ اُس کو دیکھ لوں اس کی صدا سن لوں

بہ این چشمان نابیٹا! بہ ایں اسماں ناشنوا

کیا جو تونے یا رب یا جواب کرتا ہے سب حق ہے

کرم کی جا ستم بھی ہو تو ہے تیرے لیے زیبا

ریاضت نے مجھے سمجھا دئے معنی عبادت کے

قوا سے کام لیتا ہوں وہی مطلب ہے جو تیرا

لکد کودکب فنا دل نے کیا جب دس حواسوں کو

ہوئی پیدا ترے فضل و کرم سے شکل استغنا

سرورِ محض بن جاؤں جو یکسوئی میسّر ہو

مٹیں سب آرزوئیں دل سے یہ ارماں نہیں مٹتا

سراپا مو قلم بن جاؤں بند آنکھیں اگر کر لوں

 اُتاروں صفحہ خالی پہ تیرا ہو بہو نقشا

فنا کے بعد جس دن ابر رحمت قطرہ افشاں ہو

اُگوں زیر زمیں سے خاک ہو ہو کر نبات آسا

سیاحت کا مزا ہستی میں جب جب کھینچ کر لائے

توہر آنے پہ ظاہر ہو نیا عالم نئی دنیا

فنا کا خوف ہوجائے فنا دل سے چین آئے

مجرّد2؎ مادّے سے ہو کے ہو جاؤں بہشت آسا3؎

یہ سب چاہا مگر اب چاہتا ہوں کچھ نہ چاہوں میں

یہی گر چاہتا پہلے تو کیوں ہوتا بشر رُسوا

نہ لوں کا بھی احسان سر پر عین طوفاں میں

نہ پوچھوں خضر تک سے وادی پر ہول میں رستا

مزا دیکھو کہ اس بازار میں سر پر اُٹھائے ہوں

خریداروں کا احساں بیچ کر بے دام کا سودا

کہاں تک ذک کما لوخون انصاف اک ذرا سوچو

خس و خاشاک کے روکے کبھی رکتا نہیں دریا

نئی بات آج تک اے شاد دیکھی کچھ نہ عالم میں

وہی گھٹتی ہوئی عمریں وہی مٹتی ہوئی دنیا

 1؎موقلم: باریک برش، بالوں کی قلم جس سے نقاش و مصور رنگ بھرتے اور لکیریں کھینچتے ہیں۔

2؎مجرّد: اکیلا، تنہا، مادہ سے پاک

3؎آسا: جس کی اُمید کی جائے، آس کیا ہوا، فرحت بخش(روح آسا)

تجنیس تام مستوفی:اگر الفاظ متجانس مختلف جنسوں سے ہوں (یعنی ایک اسم دوسرا فعل یا ایک اسم دوسرا حرف وغیرہ اس کو تجنیس تام مستوفی کہتے ہیں۔

 

تیسری غزل

یہ غزل چالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ غزل بھی حمدیہ ہے۔

اے ازلی الوجود اے ابدی البقا

بے ادبانہ نہ چل حلقہ عبدیت میں آ

خالق و مخلوق تو مالک و مملوک تو

ساجد و مسجود تو، عُجب نہ کر سَر جھکا

کعبہ مقصود کا حج، ترے اوپر ہے فرض

وسعت دل ہے منا، خونِ تمنّا بہا

جان صداقت پہ دے صدق ہے فطرت تری

زیست کی پروانہ کر زیست ہے دام فنا

موردِ آفات رہ، ظلم کا تابع نہ بن

بھول نہ بھولے سے بھی واقعہ کربلا

گلشنِ حق الیقیں سامنے آنکھوں کے ہے

چہرہ سے اپنے ہٹا، پردہ بیم و رجا

روز ازل خود کہا، جوش طرب میں الست

ہوگیا پھر کیوں خموش دے کے صدائے بلا

کلمہ قالوا کو تو صیغہ غائب نہ جان

جمع کو واحد سمجھ لفظ کا دھوکا نہ کھا

خاک کے پتلے سنبھل، خاک کا پتلا نہ بن

تیری تو مسند ہے عرش خاک کجا تو کجا

خار بھی اس باغ کا اپنی جگہ پھول ہے

شان سے تیری ہے دور، خود کو سمجھنا ہوا

آنکھ سے اشکال دیکھ، کان سے آواز سن

کہہ کے پشیماں نہ ہو مطلب چوں و چرا

فرش زمیں اے بشر ہے تری تعلیم گاہ

جملہ شیو نات کے معنی و مطلب لگا

تاکہ ہو عین الیقین، پاک کثافات سے

پیس یہاں تک کہ دل پس کے بنے سُرمہ سا

تیری حقیقت تلک کس کی رسائی ہوئی

بازی طفلانہ ہے مسئلہ ارتقا

تیری خودی نے تو خود، قید میں ڈالا تجھے

جوں جوں بڑھے خواہشات، پاؤں میں پھندا پڑا

زندگی دائمی کی جو تجھے ہے تلاش

ذات میں اپنی فنا ہو کے طلب کر بقا

ہے تری تسبیح پاک غازہ روئے وجود

تیری ہی توحید ہے شانہ گیسوئے لا

جلوہ کناں تو جہاں واں نہیں دخلِ گماں

جملہ شیونات ہیں سب ترے منقوشِ پا

روح امر ہے تری اس کا عدم نا درست

موت ہے تبدیل جا اس سے عبث تو ڈرا

عرصہ کون و مکاں ہیں تری زنبیل میں

فیض   ِ تو افزوں ز حصر جودِ تو فوق العطا

جوہرِ توحید تو، سبحہ تمجید تو

غزاہ روئے یقیں، شانہ گیسوئے لا

دشمنِ خانہ ہےنفس، پہلے اسی سے سمجھ

پھر ہے امیدوں کا پیش جیش طویل اللَّوا

آیتِ والفتح پڑھ، تا ہو یہ رایت نگوں

جہل تمنّا ہے یہ، جیش طویل اللَّوا

باندھ کے محکم کمر، لے تبرِ نفی غیر

کاٹ کے سب پھینک دے خار و خس ماسوا

چین سے کر زندگی، پاؤں کو پھیلا کے سو

شامِ ازل فرش خواب صبحِ ابد متکا

جوہرِ جاں تیرا میں، جان نہ تو فرق بیں

نفسک نفسی درسَت لحمک لحمی روا

بزمِ حقیقت میں تو لائق تمجید ہے

تیری ہی توحید ہے، قطع کن ماسوا

عرصہ کون و مکاں، ذرہ کے اندر نہاں

شہر ترا ہے وہاں، جس کا عدم اُوستا

عقلِ عسر رائگاں، ہیچ ہے سارا گماں

بازئ طفلانہ ہے، مسئلہ ارتقا

نورکِ مِرآۃِ حق، شاہدِ دے نہِ طبق

سرِّ تو بالا زدرک، درک تو حیرت زدہ

جلوہ کناں تو جہاں، داں نہیں دخلِ گماں

نقش تو تحت الثریٰ، شان تو فوق السّماء

نوحہء سر مشق تو، آئینہ ہست و بود

ذکر تو حاجت روا، نام تو مشکل کشا

مسلکِ سرِ میں ترئے دخل بشر ہے حرام

فکرِ فلاطون کو جان، علّتِ ماخولیا

منکرِ امرِ رحیم، صورت شیطاں رجیم

ہرکہ زند بر رخت، سیلیِ مکر و دَغا

در صفت؛ برترِی، چوں تو فلک کے بود

ذاتِ تو خالص لجیں، دے بوداقلیمیا

کوچے کا تیرے نشاں ہے وہی مسلک جہاں

قتلِ رجا ہے ہدر خونِ تمنّا روَا

تیری گلی کے فقیر، مفتخرِ شاہ و میر

دست تو دریا نوال، جودِ تو فوق العطاء

تیرے تو قانون کی ہے وہی محکم کتاب

جس کا ہے صرف ایک ورق معرکہ کربلا

عمر کے بڑھنے سے شادؔ گھٹ گیا زورِ زباں

پہلے تھا کن جس جگہ، اب ہے وہیں لفط لَا

شادؔ سخن کی ترے قدر کوئی کیاکرے

ایسے جواہر ہیں یہ، خلد ہے جن کی بہا

چوتھی غزل

اس  غزل میں اٹھارہ اشعار ہیں۔

ترے جور کا نہ کروں گِلہ کٹے تیغ سے بھی اگر گلا1؎

کروں وجد میں یہی میں صدا کہ انا الشہید بکر بلا

ہوانور رخ جو عیاں ترا دسموع وجہک اعقلا

چمک اُٹھے دشت و جبال ور در متشعشعاً متزللّاً

اسی شرم سے کہ اَلست کا تو جواب میں دیا بلیٰ

جو بلا کا مجھ پہ نزول تھا تو نہ سمجھامیں کہ ہے کیا بلا

شب غم پہ کچھ نہیں منحصر ہے جہاں حدوث کا مر ملا

کہ اسی میں سب ہے بھری ہوئی بہت اس طرح کی الا بلا

مرا سرر ہے جو سرِ سناں مری لاش خوں میں بھی ہوطپاں

لب زخم سے یہ کروں عیاں کہ انا القتیل مُرمَّلا

مجھے ذوق ہے مے وصل کا پہ نہیں عجول میں ساقیا

کہ یہ جام آئے گا مجھ تلک تری بزم میں متداولا

ترا ظلم بھی ہی عجب عطا کہ میں فارغ آج ہوں ہر طرح

تھے اس ایک وار میں لطف دو نہ گِلہ رہا نہ رہا گَلا

تیرے دم سے اس کا رواج ہے ترا ناز منفرد آج ہے

ترے سر پہ حسن کا تاج ہے مترصعاً متکلّلا

مجھے لاک سجدہ کریں مَلَک مرا فرش راہ ہو عرش تک

میں حضیض محض تھا اے فلک فلذا نزلت من العُلیٰ

نہ کروں جو عجز و فروتنی تو خود اپنے ساتھ ہی دشمنی

فَلِذَا وَجَدتُّ مِنَ العَدَم و کَذَا استحقُّ مِنَ العُلیٰ

ہیں نگاہ شوق میں متحد ترا کوچہ ہو کہ ہو قتل گہہ

تری جلوہ گاہ ہیں دونوں ہی جو منیٰ ہی یہ تو وہ کربلا

جو رضا تری ثمر اس کا ہے تو سکون و صبر ہیں اس کے گُل

ہے عجیب چیز نہال غم نہ ہمیں کو ہائے کبھی پھلا

رہ عشق میں جو رکھا قدم ہوئے اس طرح کے مخوف ہم

چلیں حاج جیے سوئے حرم متقنکاً متہرولاً

جو کھلے زبانِ مہیمنی، کہیں ہم کو سب سے ہے ایمنی

کہ ہیں جملہ کام سے ہم غنی نہ کہ عَاطلاً و مُعطّلاً

مجھے خوف ہے کہ الجھ کے یہ کہیں راستے میں نہ رہ پڑے

مری روح عالم کون سے جو یونہی رکھے گی خلا ملا

ہمیں شادؔ جس کا بہت تھا ڈر وہی پیش آگیا الحذر

تمہیں کہتے تھے کہ امید سے نہ زیادہ رکھو خلا ملا

مری عمر شادؔ تمام تر اسی گو مگو میں ہوئی بسر

نہ کلام کرنے سے غم گھٹا نہ خموشیوں سے کئی بلا

میں ہر ایک شعر پہ شادؔکے کروں جان و مال سی شئے فدا

مجھے کل کلام ملے کہیں جو مرتباً و مکللا

1؎تجنیس محرّف: جب الفاظ متجانس بہمہ  وجوہ یکساں ہوں اور فرق  صرف حرکات میں ہو اس کو تجنیس محرّف کہتے ہیں جیسے شیر، شِیر

پانچویں غزل

اس  غزل میں گیارہ اشعار ہیں۔

دل تو بدنام ہے اک عمر سے کیا اس کا گلہ کہتے آئی ہے صبا

یہ تمنّا یہ امیدیں جنھیں برسوں پالا کب مری ہوں گی بھلا

وہ تری کج روشی، کج کلہی، کینہ وری، دلبری، عشوہ گری

کون غش کھا کے سر راہ گرا، کون موا، پھر کے دیکھا نہ ذرا

بان مارا تری آنکھوں نے جو کی پھر کے نگاہ نہ ملی دل کو پناہ

یار کیا قہر ہے چلتا ہوا جادو تیرا، لاکھ روکا نہ رُکا

رُت پھری، ساری ہری ڈالوں میں پھوٹی کونپل ،ہوگئے پھول بھی پھل

اک یہ اجڑا ہوا دل ہے کہ نہ پھولا نہ پھلااور سوکھا ہے کیا

کالی کالی وہ گھٹائیں، وہ پپیہوں کی پکار دھیمی دھیمی وہ پھوار

اب کے ساون بھی ہمارا یوں ہی رونے کٹاکیا کہیں چپ کے سوا

بوسہ لینے کا مری خاک کو بھی ہی ارماں، تاب اٹھنے کی کہاں

جامہ زیبی کا بھلا اے صنم تنگ قبا، کچھ تو دامن کو جھکا

فتنہ خو، آفت جاں، سنگدل، آشوب جہاں، دشمنِ امن و اماں

سرور کج کلہاں، خسرو اقلیم جفا، بانی مکرو دغا

رس بھری ہائے وہ آنکھیں تری کالی کالی ، بے پئے متوالی

سانولا رنگ، نمک ریز جراحات جفا، اُف کہاں دھیان گیا

دیکھنا تیرا کنکھیوں سے ہے آری برچھی، یار اس کی نہ سہی

کب کو گنتی میں ہے وہ گھاؤ جو اوچھا سا لگا، پھر کے پھر دیکھ ذرا

کیا خطا اپنی اگر جاکے اچانک الجھے، نہ کبھی پھر سلجھے

جان کر دل کو پھنسائے خمِ گیسو میں بھلا کس کی شامت ہے بتا

آنکھیں روئی ہوئی، آواز ہے بھرّائی ہوئی، باتیں گھبرائی ہوئی

اس سے تو اور کسی بھید کا ملتا ہے پتا، شادؔ قسمیں تو نہ کھَا

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭“کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ “آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭“نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ “آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ “گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭“غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ “اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭“عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks