Wali Dakni : Hayat-o-khidmat

ولیؔ دکنی : حیات و خدمات

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے

میر تقی میرؔ

ولی ؔکو نظم اردو کی نسل کا بابا آدم بھی کہا گیا ہے اور ان کے سر پر اولیت کا تاج بھی رکھا گیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری کا چرچا  ولی ؔ کی رہین منت ہے۔وہ فارسی کی تمام بحریں اردو میں لائے ، شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ و ردیف سےسجایا۔ ردیف وار دیوان بنایا۔۔۔۔۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چاسر  کو،  فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔ انھوں نے اس میں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو بھی داخل کیا۔

نام:

گلشن ہند، تذکرہء میر حسن، تذکرہ گلشنِ سخن، مخزن نکات، سخن شعرا، آثار الشعرا اور ولی گجراتی از ظہیرالدین مدنی میں ان کا نام "ولی اللہ ” یا "شاہ ولی اللہ” لکھا ہے۔

مخزنِ شعرا، چمنستان شعرا، تذکرہء  ریختہ گویاں، مجموعہءنغز ، تذکرہ مسرت افزا وغیرہ میں "محمد ولی” بتایا گیا ہے۔ گلشن گفتار مصنّفہ حمید اورنگ آبادی میں ولی کا نام "ولی محمد” بتایا گیاہے۔ولی کے محبوب دوست سید ابوالمعالی کے لڑکے سید محمد تقی کے نقل کردہ دیوانِ ولی کے پہلے صفحے پر یہ عبار ت ملتی ہے:

"تصنیفِ مغفرت پناہ میاں ولی محمدمتوطن دکھن۔”

ان شواہد کی روشنی میں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ  ولی کا نام ولی محمد تھا اور ولی اللہ کوئی اور بزرگ تھے جن کا تعلق وجیہ الدین علوی گجراتی کے خاندان سے تھا۔

اہلِ گجرات کا کہنا یہ ہے کہ ولی کا صحیح نام محمد ولی اللہ تھا اور وطن احمد آباد (گجرات)تھا۔ والد کا نام شریف محمد (متوفی 1072ھ) تھا اور وہ احمد آبادکے مشہور بزرگ صوفی خاندان شاہ وجیہہ الدین گجراتی(متوفی 998ھ) کے بھائی شاہ نصراللہ کے خاندان سے تھے۔

اہلِ دکن کی تحقیق کے متعلق   ولی  کا صحیح نام ولیؔ محمد تھا اور ان کا  اصلی وطن اورنگ آباد، دکن ہے۔البتہ اس بات پر  دونوں خطّوں کے حضرات متفق ہیں کہ ولیؔ نے احمد آباد میں تعلیم پائی تھی۔

ولی ؔ نے احمد آباد میں حضرت شاہ وجیہہ الدین ؒ کی خانقاہ کے مدرسے میں شیخ نورالدین سہروردیؔ سے اکتساب علم کیا۔ شیخ موصوف اپنے وقت کے بڑے  عالم فاضل بزرگ تھے۔ شاعری میں ولیؔ نے اپنے کو شاہ گلشن کا شاگرد لکھا ہے۔

شاہ گلشن کا پورا نام شیخ سعدالدین دہلوی تھا۔ یہ شاہ گل سرہندی کے مُرید تھے۔ پیر کے نام کی رعایت سے گلشن کے استاد مرزا بیدل نے ان کا تخلص گلشن تجویز کیا تھا۔

وطن:ولی کے باپ یا دادا گجرات سے ہجرت کر گئے تھے۔ ۔۔ دکن میں رہنے کے باوجود گجرات سے ان کا تعلق باقی تھا۔ ۔۔۔ دکن میں آکر دکنی ہوگئے تھے۔

لقب: شمس الدین

پیدائش: اورنگ آباد 1668ء

ولی ابوالمعالی کے ساتھ 1700ء میں دہلی آئے، اس زمانے میں دلی کا صوبہ دار محمد یار خاں تھا۔ یہاں ان کی ملاقات صوفی سعداللہ گلشن سے ہوئی، انھوں نے فارسی کے شیریں الفاظ استعمال کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنی زبان میں ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ دکن واپس جانے کے بعد ولیؔ نے ان مشوروں پر عمل کیا اور انیس سال بعد جب ان کا دیوان دہلی پہنچا  تو  بقولِ آزاد:

"اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر لیا۔ قدر دانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا۔ لذت نے زبان سے پڑھا۔ گیت موقوف ہوگئے۔ قوال ِمعرفت کی محفلوں میں انہی کی غزلیں گانے بجانے لگے۔ اربابِ نشاط یاروں کو سنانے لگے۔ جو طبیعت موزوں رکھتے تھے انھیں دیوان بنانے کا شوق ہوا۔”                                                       (آبِ حیات)

ان کی انشا پردازی اور شاعری کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ ایک زبان کو دوسری زبان سے ایسا بے معلوم جو ڑ لگایا ہے کہ آج تک زمانہ نے کئی پلٹے کھائے ہیں مگر پیوند میں جنبش نہیں آئی۔ (آب ِحیات)

باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہرجگہ ملتا ہے اور بکتا ہے۔ یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیا ہے۔ اس میں علاوہ ردیف وار غزلوں کے، رباعیاں، قطعے، دوتین مخمّس، قصیدے، ایک مثنوی، مختصر معرکہء کربلا کے حالات اور ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے۔

ولی ؔنے قدیم روایت کے بہترین اور زندہ اجزا کو اپنی شاعری میں سمیٹ لیا اور ان تمام آوازوں کو اپنی آواز میں جذب کرلیا جو تاریخ کے ساز کے مختلف تاروں سے نکل رہی تھیں۔ ولیؔ دکنی کی شاعری میں سارے قدیم دور کی روح بھی بول رہی ہے اور ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو نئے امکانات سے متعارف بھی کرا رہی ہے۔

ولیؔ  کا دیوان ایسی دلکش غزلوں کا مجموعہ ہے کہ دل اس پر مائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔                     (سنبل نگار)

پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ولیؔ دو بارہ دلّی گئے ، ایک تو 1112ھ میں اور دوسری بار 1132ھ میں یعنی محمد شاہ کے زمانے میں، یہ غلطی اس شعر سے اور بھی تائید حاصل کرتی تھی جو آزاد نے ولیؔ کے نام سے ‘آب ِحیات’ میں درج کردیاتھا        ؎

دل ولیؔ کا لے لیا دلیّ نے چھین:: جا کہو کوئی محمد شاہ سوں

لیکن ولی ؔ کے دیوان میں نہ یہ شعر ہے نہ محمد شاہ کا کہیں ذکر ۔ یہ شعر دراصل مضمونؔ کا ہے اور یوں ہے۔

اس گدا کا دل لیادلّی نے چھین :: جا کہو کوئی محمّد شاہ سو

دراصل جلوس محمد شاہی یعنی 1132ھ میں ولی ؔ کا مکمل دیوان دلّی پہنچا تھا۔ (مخزن نکات بحوالہ کلیات ِولی مرتبہ نورالحسن ہاشمی)

وفات: ولیؔ 1119ھ میں بمقام احمد آباد انتقال کئے اور وہیں نیلی گنبد کے قریب، مزار موسٰی سہاگ اور شاہی باغ کے درمیان اپنے جدّی قبرستان میں مدفون ہوئے۔

سال وفات : 1720سے 1725 کے درمیان

دوست: ولیؔ کے دیوان میں  اکثر احباب کا نام ملتا ہے خصوصاً سیدابوالمعالی کا جن سے غیر معمولی محبت تھی۔ اور جو ولیؔ کے ساتھ دلّی کے سفر میں بھی شریک تھے۔ گلشن گفتار میں سیدابوالمعالی کو گجرات کا مشائخ زادہ بتایا گیا ہے۔

ترا قد دیکھ اے سیّدمعالی::سخن فہماں کی ہوئی ہے فکر عالی

اسی طرح شمس الدین، سراج، کامل و اکمل، محمدمراد اور محمد یارخاں کا بھی ذکر ان کے اشعار میں آیا ہے۔

سراج الدین سراج ولیؔ کے ہم نسب، خاندانی رشتہ دار اور ہم عمر دوستوں میں سے تھے، شمس الدین انھی شاہ سراج کے بیٹے تھے، کامل و اکمل دونوں حقیقی بھائی تھےاور ولیؔ کے رشتہ دارتھے، محمد مراد گجرات کا ایک فوجدار تھا اور محمد یار خاں دہلی کا صوبہ دار تھا۔۔

ولیؔ نے اپنے ہندو دوستوں کا ذکر بھی اپنی متعدد غزلوں میں کیا ہے۔ امرت لال، گوبندلال، کھیم داس، بنود (صحیح لفظ ونود) وغیر کے نام کئی جگہ آئے ہیں۔ ولی ؔکے شاگردوں میں سے صرف اشرفؔ، رضیؔ، اور ثناؔ کا پتہ اب تک چل سکا ہے۔

ولی ؔنے فارسی نثر میں ایک  رسالہ نورالمعرفت کے نام سے بھی لکھا تھا۔ یہ رسالہ کوئی تصوف کارسالہ نہیں ہے جیسا کہ بعض پچھلے تذکرہ نویسوں نے عدم واقفیت کی بنا پر تحریر کیا تھا بلکہ ایک مدرسہ "ہدایت بخش” نامی کی تعریف میں ہے جو 1111ھ میں مولانا نورالدین صدیقی کے شاگرد اور مرید محمد اکرام الدین مخاطب بہ شیخ الاسلام خاں صدرصوبہ نے اپنے استاد کےلیےاحمدآباد میں تعمیر کرایا تھا۔

محمد حسین آزاد نے ولی دکنی کو اردو شاعری کا باو آدم، چاسر، رودکی کے مساوی قرار دیا ہے۔

میر تقی میر نے ولی دکنی کو مسلم الثبوت استاد، استادِ ریختہ، شیطان سے زیادہ مشہور کہا ہے۔

کلیات ولی سے متعلق مطالعہ کے لیے کلک کریں

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭"کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭"کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ "کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ "آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭"نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ "آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ "گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭"غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭"وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ "اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭"عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!