Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat

مومن خاں مومنؔ : حیات و خدمات
Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat

نام: محمد مومن خاں

تسمیہ: مومن خاں کی پیدائش پر حکیم غلام نبی خاں حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں پہنچے اور بچے کے کان میں اذان دینے کی فرمائش کی۔ شاہ صاحب نے اذان دی اور بچے کا نام محمد مومن خاں تجویز کیا گھر والوں نے حبیب اللہ نام تجویز کیا تھا۔

تخلص: مومنؔ

ولادت: 1800، دہلی کے محلّہ کوچہ چیلان (ساری عمر دہلی ہی میں رہے)

ہو صورت خاک دل لگنے کی جنت میں بھلا مومنؔ

مری نظروں میں ہے شاہجہاں آباد کا نقشہ

خاندان: شاہ عالم ثانی کے دورِ شاہی میں کشمیر سے دو بھائی؛ نامدار خان اور کامدار خان دہلی آئے ، یہ دونوں بھائی شاہی طبیبوں کے زمرے میں شامل کر لیے گئے، حکیم نامدار خان کے تین بیٹے تھے ؛ حکیم غلام حیدر خاں، حکیم غلام حسن خاں اور حکیم غلام نبی خاں۔ حکیم غلام نبی خاں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے لیکن سب سے پہلے وفات پاگئے۔ یہی حکیم  غلام نبی خاں مومن خاں کے والدِ ماجد ہیں۔

تعلیم : مدرسہ شاہ عبدالعزیزسے شاہ عبدالقادر (مومن حافظ قرآن بھی تھے، جس کا ذکر انھوں نے اپنی مثنوی "شکایت ستم” میں کیا ہے)۔

زبان: عربی ، فارسی اور اردو

علوم:طب، علم نجوم، رمل، ریاضی

مشغلہ: شطرنج سے گہری دلچسپی تھی، اپنے زمانے کے مشہور شاطر اور قرابت دار کرامت علی خاں سے شطرنج کھیلتے تھے اور دن رات کو بھول جاتے تھے۔

خاندانی پیشہ : انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی اور اپنی ذہانت سے اس میں مہارت حاصل کی، سعادت خاں ناصر نے انھیں "مسیحا نفس، حکیم بے نظیر، شاعر بے عدیل لکھا ہے، لیکن ساری عمر باقاعدگی سے مطب نہیں کیا۔ صرف خاص خاص موقعوں پر نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرتے تھے۔ امۃالفاطمہ صاحبہ سے نبض دیکھ کر ہی عشق پیدا ہوا تھا۔

شادی: مومن مرد آزاد اور عاشق مزاج انسان تھے، 26سال کی عمر تک شادی نہیں کی اور عشق و عاشقی میں لگے رہے۔ نو سال کی عمر سے اکتیس برس کی عمر تک وہ مختلف عشقوں میں گرفتار رہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی چھ عشقیہ مثنویوں میں کیا ہے۔ والد کی وفات کے بعد انہوں نے پہلی شادی سردھنہ میں سعد علی خان بہادر کے خاندان میں کی لیکن یہ شادی ناکام رہی، اس سے متعلق لکھتے ہیں کہ "اگر میں نے حرام سے توبہ کی تو حلال تو ترک نہیں کیا، اگر آوارہ گردی سے پاؤں اٹھایا ہے تو نکاح سے تو ہاتھ نہیں اٹھایا۔ چوں کہ میں نے نابکار جاہلوں سے تکلیف اٹھائی ہے اور بد اطوار گنواروں سے رشتہ کرنے میں مصیبتیں جھیلی ہیں اس لیے ارادہ ہے کہ کسی عالی خاندان سے قرابت کروں اور کسی شریف النسل زہرہ جمال کے دیدار سے آنکھوں کو تسکین دوں۔”

دوسری شادی انھوں نے خواجہ میر درد کے نواسے خواجہ محمد نصیر محمدی رنج دہلوی کی بیٹی سے 1245ھ میں کی۔

معاشی حالت: مومن دہلی کے ایک سربرآوردہ خاندان کے چشم و چراغ تھے اور رؤسا کی طرح زندگی گزارتے تھے، حالاں کہ مومن کی حالت غالبِ خستہ سے بھی زیادہ خستہ تھی، لیکن وہ ساری عمر عزتِ نفس اور خود داری، وضع داری کے ساتھ نبھاتے رہے۔ بعض دفعہ اتنے پریشان ہوئے کہ دہلی کو چھوڑ کر چلے جانا چاہتے تھے۔ شاہ عالم ثانی کی جانب سے ہلاہہ پرگنہ نارنول میں جو جاگیر ملی تھی، دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ، جھجر کا  سارا علاقہ کمپنی کے وفادار بہادر نواب فیض محمد خاں کو دے دیا گیا تھا اور اسی کے ساتھ مومن کے اسلاف کی یہ جاگیر بھی نواب فیض محمد خان کی جاگیر میں چلی گئی تھی جس کے عوض ایک ہزار روپیہ سالانہ اس خاندان کے ورثاء کو ملتا تھا جس میں مومن کا بھی حصہ تھا، جو کہ باقاعدگی سے وقت پر نہیں ملتا تھا۔ مومن کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ سسرال سے ملا ہوا مکان بھی فروخت کردیا تھا ایک اور خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا کوئی اور مکان بھی بیچناچاہتے تھے، اور اسی لیے اسے کرائے پر دینا نہیں چاہتے تھے، وہ زمین جو مومن خان کو ورثے میں اپنی والدہ کی طرف سے ملی تھی اُسے بھی انگریز ریزیڈنٹ فریزر نے زبردستی چھین لیا تھا۔

شاعری: مومن کی شاعری کا آغاز اُس وقت ہوا جب وہ بارہ تیرہ برس کے تھے، 1221ھ میں جب اپنی پہلی عشقیہ مثنوی "شکایت ستم” مکمل کی ان کی عمر سترہ برس کی تھی۔

شاگرد: شاعری میں مومن کے بہت سے شاگر د تھے جن میں 38 کے نام فائق رام پوری نے اور 44 کے نام ظہیر احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں دیے ہیں جن میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ و حسرتی، نواب محمد اصغر علی خاں نسیمؔ دہلوی، میر حسین تسکینؔ، میر عبدالحق آہیؔ، حکیم مولا بخش قلقؔ میر ٹھی، مرزا قربان علی بیگ سالکؔ، مرزا محمود بیگ، راحت دہلوی وغیرہ ممتاز ہیں۔

بیعت: انھوں نے جوانی ہی میں حضرت صاحب سید احمد شہید بریلوی کے ہاتھ پر بیعت کی، رجب 1233ھ اور 4 شعبان 1234ھ مطابق مئی 1818ء اور 29 مئی 1819ء کے درمیان تاریخ متعین کی ہے۔

Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat

تصانیف

دیوان مومن (اردو)

اپنے اُستاد مومن خاں مومن کے بارے میں شیفتہ نے لکھا ہے کہ "آزادانہ زیست” کی وجہ سے ان کا کلام  ” بند بے تعلقی ” میں پڑا رہا۔ شیفتہ نے دیوان مومن جمع کر کے 1843ء میں مرتب کیا اور 1846ء میں کریم الدین نے اسے دہلی سے شائع کیا۔ اس کے بعد دیوانِ مومن کا دوسرا ایڈیشن مومن خاں کے شاگرد اور ان کی بہن کے داماد جنہیں مومن اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتے تھے، عبد الرحمن آہی نے ترتیب دیا اور اس میں وہ کلام بھی شامل کر دیا جو شیفتہ کے مرتبہ دیوان مومن کے بعد لکھا گیا یا دستیاب ہوا تھا۔ یہ ایڈیشن "کلیات مومن” کے نام سے 1873ء میں مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوا۔ اس کا پانچواں ایڈیشن 1923ء میں اور چھٹا 1930ء میں چھپ کر سامنے آیا۔ اس کلیاتِ مومن کے شروع میں شیفتہ کا دیباچہ ہے اور آخر میں آہی دیباچہ بطور "خاتمہ” شامل ہے۔ ایک نسخہ وہ ہے جو "دیوان مومن مع شرح” کے نام سے ضیا احمد بدایونی نے مرتب کر کے 1934ء میں الہ آباد سے شائع کیا تھا۔ ایک کلیات مومن وہ ہے جس کو کلب علی خاں فائق رام پوری نے مرتب کیا اور 1964ء میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوا۔ جلد اول میں 219 غزلیات کے علاوہ فردیات، رباعیات، مثلث، تخمیس، تضمین، مسدس، مثمن، ترجیع بند، ترکیب بند شامل ہیں اور جلد دوم میں 9 قصائد، 6 معمے، 26 قطعات کے علاوہ گیارہ مثنویاں بھی شامل ہے۔ دو قصیدے حمد اور نعت میں، چار قصیدے خلفائے راشدین کی منقبت میں اور ایک حضرت امام حسن کی منقبت میں۔ باقی دو ان میں سے ایک میں رئیس پٹیالہ راجا اجیت سنگھ کا شکریہ ادا کیا ہے جس نے انھیں ہاتھی کا تحفہ دیا تھا۔ ایک قصیدے میں والی ٹونک نواب محمد وزیر خاں کی مدح کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر نہ ہونے پر معذرت کی ہے۔

محمد حسین تسبیحی نے مومن کے اردو کلیات کے اشعار کی تعداد جو سولہ اصنافِ شعر میں لکھے گئے ہیں۔ 8339 شمار کی ہے جن میں 31 اوزان کی بنیاد پر بارہ عروضی بحر استعمال کی گئی ہیں۔

نوٹ: شاعری کی اصطلاح میں تخمیس کے معنی ہیں مخمس کی شکل میں کسی غزل کے کسی شعر کی تضمین کرنا۔ قاعدہ اس کا یہ ہے کہ غزل کے ہر شعر سے پہلے مصرع اولیٰ کے قافیہ کی رعایت سے تین مصرعے اضافہ کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے مخمس کے لیے بعض اوقات خمسہ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے چکبست کی مشہور غزل کی اثرلکھنوی نے تخمیس کی ہے:

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

 

تخمیس ملاحظہ ہو:

ذرے ذرے کی ہے تعمیر میں پنہاں تخریب

اور اسی طرح فنا میں ہے بقا کی تقریب

اللہ اللہ مشیت کی انوکھی ترکیب

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

 

دیوان مومن (فارسی)

پھوپھی زاد حکیم احسن اللہ خاں کی توجہ سے دیوان ِمومن فارسی محفوظ رہا، جسے انھوں نے مرتب کر کے 13 ذیعقدہ 1271ھ کو مطبع سلطانی سے شائع کیا۔ اس میں سات قصیدے شامل ہیں۔ دو حمد و نعت میں، چار خلفائے راشدین کی شان میں اور ایک سید احمد شہید بریلوی کی مدح میں ہے۔ دکتر محمد حسین تسبیجی نے لکھاہے کہ اس دیوان میں 119 غزلیں، سات قصیدے، 34 قطعات، 14 مثنویاں، 86 قطعات ماده تاریخ 35 فردیات، 25 مصراع اور 210 رباعیات شامل ہیں اور اشعار کی کل تعداد 2850 ہے جن میں 9 عروضی بحور استعمال کی گئی ہیں۔

انشائے مومن

یہ فارسی زبان میں لکھے ہوئے خطوط "تقاویم” و دیباچوں اور تقاریظ وغیرہ پر مشتمل وہ مجموعہ ہے جسے "دیوانِ فارسی” کی طرح حکیم احسن اللہ خاں نے مرتب کرکے 1271ھ میں اسی کے ساتھ ایک جلد میں مطبع سلطانی سے شائع کیا۔ اس میں تین قسم کی تحریریں شامل ہیں:

ایک وہ خطوط جو مومن نے کسی عزیز یا دوست کو لکھے ہیں۔

دوسری قسم میں وہ خطوط آتے ہیں، جو مخاطب کی کم فہمی کی وجہ سے سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں

تیسری میں اہتمام سے لکھی ہوئی تقاریظ، اصطلاحاتِ علمی کے ساتھ لکھی تقاویم اور ان کے لکھے ہوئےدیباچے شامل ہیں۔ مومن اپنے کلام کے متعلق ایک خط بنام احسن اللہ خاں میں لکھتے ہیں کہ "المختصر میں اس طرح نغمہ سرائی کرتا ہوں کہ بلبل بھی میری ہم سری نہیں کر سکتی اور گل افشانیاں کرتا ہوں کہ زرگل ان کی حسرت میں جلتا ہے لیکن کیا کروں کہ سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں نہیں۔

ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ "زمانے کی ناقدری اور نا فہی کے باعث کوئی میرا خریدار نہیں ہے اور میرے آب دار موتیوں کا تاریکی میں بھی بازار مندا ہے۔ اس ناقدری کے باوجود میں نے کبھی ہنر کی آبرو نہیں بیچی اور امراء کی آستین سے توقعات وابستہ نہیں کیں۔ میں نے جو کی روٹی پر قناعت کی ہے اور آسمان کے خوشہ گندم پر کبھی نظرنہیں ڈالی۔

سخن سازی اربابِ صدق و صفا کا شیوہ نہیں۔

Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat

وفات

وفات سے پانچ مہینے پہلے صفر کے مہینے میں گھر کی چھت پڑ رہی تھی۔ مومن نگرانی کر رہے تھے کہ اچانک پیر پھسلا اور وہ بے طرح زمین پر آ رہے۔ ہاتھ اور بازوں کی ہڈیاں بری طرح ٹوٹ گئیں۔ علاج کیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ زائچہ دیکھا تو کہاکہ میں صرف پانچ مہینے اور زندہ رہوں گا۔ ہوا بھی یہی چنانچہ یہ حادثہ  ان کی وفات کا سبب بنا۔ غالبؔ اپنے ایک خط بنام منشی نبی بخش فقیر مورخہ یکم شعبان 1268ھ بمطابق 21 مئی 1852ء  میں لکھا کہ "سنا ہوگا کہ مومن خاں مرگئے۔ ان کو مرے ہوئے دسواں دن ہے ۔ مومن میرا ہم عصر اور یار بھی تھا۔ ۔۔۔۔مجھ  میں اس میں ربط پیدا ہوا۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان میں نہ آیا۔” غالب کے اس خط کی رُو سے یکم شعبان کو دسواں دن تھا یعنی 21 رجب 1268ھ مطابق 12 مئی 1852ء مومن کی وفات ہوئی۔ ان کی خواہش کے مطابق دلی دروازے کے باہر  مہندیوں میں شاہ عبدالعزیز اور ان کے خاندان کے مقابر کے احاطے کی دیوار انھیں دفن کر دیا گیا۔ ان کی وفات کے 95 سال بعد پروفیسر احمد علی دہلوی نے قبر کو پختہ کرا کے اس پر کتبہ لگوا دیا۔ جمیل جالبی کہتے ہیں کاش یہ شعر بھی لکھ دیتا:؎

سنگ مرقد سے مرے فیض ہے سب کو مومن

ہوں تہ خاک بھی طوطی پسِ آئینہ

غالب : "کاش مومن خاں میرا سارا دیوان لے لیتا اور صرف یہ شعر (تم مرے پاس ہوتے ہو : گویا کوئی دوسرا نہیں ہوتا) مجھ کو دیدیتا” یادگار غالب

حالی: "مومن خاں مرحوم اس خصوصیت (نزاکت خیال) میں مرزا سے بھی سبقت لے گئے ہیں۔      (یادگار غالب)

محمد حسین آزاد: "ان کے خیالات نہایت نازک اور مضامین عالی ہیں” (آب حیات)

رام بابو سکسینہ: "مومن کا کلام نازک خیالی اور بلند پروازی کے لیے مشہور ہے اور وہ صاحب طرز ہیں۔” تاریخ ادب اردو

Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat

نصاب میں شامل مومن کی غزلیں

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭"کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭"کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ "کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ "آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭"نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ "آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ "گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭"غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭"وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ "اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭"عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

1 thought on “Momin Khan Momin : Hayat-O-Khidmat”

  1. Pingback: NTA UGC NET Urdu Complete Syllabus اردو لٹریچر

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!