دیوانِ مومن
ردیف "ے" کی ابتدائی پانچ غزلیں deewan e Momin ki radeef Ye ki ibtedai 5 Ghazlen
پہلی غزل
یہ غزل چودہ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ کیا ، پھرا، مزا، بجا، سُنا، حیا، اُٹھا،دعا، ہوا، سزا، رہا، مرا، خفا، وفا، خدا، اور ردیف “ہے” ہے۔
منظورِ نظر غیر سہی اب ہمیں کیا ہے
بے دید تری آنکھ سے دل پہلے پھرا ہے1؎
کھائی ہے قسم ہم نے کہ پرہیز کریں گے
گر درد سے بھر جائے طبیعت تو مزا ہے2؎
جب گھر میں نہو تم تو رہیں کوچے میں ہم کیوں
شکوہ جو تمھارا تو ہمارا بھی بجا ہے
بس بس نہ کرو بات کہ یاد آئے ہے مجھ کو
ناصح سے جو کچھ بے خود یوں میں بھی سُنا ہے3؎
کس طرح نہ اس شوخ کے رونے پہ ہنسوں میں
نظروں میں مروّت ہے نہ آنکھوں میں حیاہے4؎
اب شوق سے تم محفل ِاغیار میں بیٹھو
یاں گوشۂ خلوت میں عجب لُطف اٹھا ہے
یارب کوئی معشوقہ دلجُو نہ مِلے اب
جوان کی دعا ہے وہی اپنی بھی دعا ہے5؎
توبہ گُنہِ عشق سے فرمائے ہے واعظ
یہ بھی کہیں دل دے کے گنہگارہوا ہے6؎
آزردہ حرمانِ ملاقات ملے (منے)کیا
یعنے کہ نہ ملنا ہی نہ ملنے کی سزا ہے7؎
پرہیز سے اُس کے گئی بیماریِ دل آہ
بیگانگیوں میں بھی عجب ربط رہا ہے8؎
تھا محوِ رُخِ یار میں کیا آئینہ دیکھوں
معلوم ہے یارو مجھے جو رنگ مرا ہے9؎
چاہا کرے دل لاکھ نہ بولوں گا جو ہمدم
وہ میرے منانے کو رقیبوں کے خفا ہے10؎
میں ترکِ وفا سے بھی وفادار ہوں مشہور
کیں تجھ سے جو اے دُشمنِ ارباب وفا ہے11؎
مومنؔ نہ سہی بوسۂ پا سجدہ کریں گے
وہ بُت جو اوروں کا تو اپنا بھی خدا ہے12؎
٭٭٭٭٭
1؎تیری نظر پھر نے سے پہلے ہمارا دل تجھ سے پھر گیا۔
بے دید: بے مرّوت
2؎اگر درد عشق سے طبیعت بیزار ہوجائے تو بہتر ہے کیوں کہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ (طلب یار سے) پرہیز کریں گے۔
3؎؎میری بیخودی کے کے زمانہ میں ناصح یہ کہہ کر عشق سے منع کرتا تھا کہ معشوق بے وفا ہے۔ مگر میں دھیان نہ دیتا تھا لیکن کان پڑی بات کبھی نہ کبھی کام آجاتی ہے۔ چنانچہ تمھارے ظلم دیکھ کر اب اُس کی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس لیے میرے سامنے صفائی پیش کرنے فائدہ۔
4؎معشوق (ارتباط غیر کی تردید میں) اپنے کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے روتا ہے اور میں اس کے رونے پر ہنستا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اُس کا رونا تصنّع کی بناپر ہے۔
5؎دعا دونوں کی ایک ہے مگر نیت مختلف۔ معشوق عاشق سے ناراض ہوکر دعا کر رہا ہے اور عاشق عشق سے بیزار ہوکر۔
6؎مراد یہ ہے کہ اگر واعظ گنہگار نہ ہوتا تو توبہ کیوں کرتا۔ “فرماے ہے” طنزاً استعمال کیا ہے۔
7؎جو شخص ملاقات یار سے محروم رہنے کی وجہ سے آزردہ ہے (یعنی عاشق) وہ اب معشوق کے منانے سے بھی نہیں من سکتا۔ کیوں کہ معشوق جو اتنے عرصہ تک نہیں ملا اُس کی سزا یہی ہے کہ عاشق بھی آیندہ اُس سے نہ ملے۔
8؎عموماً ربط باہمی یگانگی کی حالت میں ہوتا ہے۔ مگر یہاں بیگانگی میں بھی ربط (یکسانی طبیعت) کا یہ حال رہا کہ اُدھر دوست نے ہم سے پرہیز کیا ادھر ہماری بیماریِ دل رخصت ہوئی یعنی اس کی سرد مہری نے ہمارا جوش الفت فرو کردیا۔ گویا جس رُخ کو اس کی طبیعت بدلی اُسی رُخ کو ہماری طبیعت بھی پلٹی یا یہ بیگانگی کے باوجود اُس کی ذات سے مجھے یہ فائدہ پہونچا کہ بیماری ِ دل جاتی رہی آہ کا لفظ مصرع ثانی سے متعلق ہے اور یہ پتہ دے رہا ہے کہ عاشق کو اب اس قدر مشارکت بھی پسند نہیں۔
9؎احباب نے عاشق سے کہا کہ ذرا آئینہ لے کر تو دیکھو۔ عشق کی بدولت تمھارے چہرے کی کیا حالت ہوگئی ہے، اس کا جواب دیتا ہے کہ میں رُخِ یار میں محو تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے رنگ رُخ کا کیا حال ہوگا پھر آئینہ دیکھنے سے کیا حاصل۔ اس میں لطافت یہ ہے کہ رُخ یار خود آئینہ فام ہے۔ آئینہ کی حاجت نہیں۔
10؎اگر دوست میرے منانے کی خاطر رقیبوں سے خفا ہوا ہے تو میں اس سے ہرگز نہ بولوں گا (کتناہی دل کیوں نہ چاہے) کیوں کہ میری تو عین خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ رقیبوں سے ناراض رہے۔ اگر میں اُس سے من گیا تو ڈر ہے کہ وہ یہ سمجھ کر کہ مقصود تو حاصل ہوہی گیا پھر ان سے ملتفت نہ ہوجائے۔
11؎کیوں کہ تجھ جیسے دشمن اربابِ وفا سے میرا ترک وفا کرنا بھی اہل عقل کے نزدیک داخل وفا داری ہے کیں دشمنی۔
12؎اگر بت کا بوسہ پا نہیں ملتا تو نہ ملے، ہم آئندہ سے خدا کو سجدہ کریں گے۔ غزل میں سر تا پاواسوخت کا رنگ ہے۔
دوسری غزل
یہ غزل چودہ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ قضا، بیوفا، اُٹھا، جا، سا، مبتلا، مسکرا، ہوا، حیا، کھا، بلا، سُنا، درا، صبا، جزااور ردیف “کے آنے کی”ہے۔
خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضا کے آنے کی
خبر ہے لاش پہ اس بے وفا کے آنے کی
ہے ایک خلق کا خوں سر پہ اشک خوں کے مرے
سکھائی طرز اُسے دامن اُٹھا کے آنے کی1؎
سمجھ کے اور ہی کچھ مر چلا میں اے ناصح
کہا جو تونے نہیں جان جا کے آنے کی2؎
امیدسرمہ میں تکتے ہیں راہ دیدہ زخم
شمیم سلسلہ مشک سا کے آنے کی3؎
چلی ہے جان، نہیں تو کوئی نکالو راہ
تم اپنے پاس تک اس مبتلاکے آنے کی
نہ جاے کیوں دلِ مرغِ چمن کہ سیکھ گئی
بہار وضع ترے مسکراکے آنے کی
مشام غیر میں پہونچے ہے نکہتِ گلِ داغ
یہ بے سبب نہیں بندی ہوا کے آنے کی4؎
جو بے حجاب نہ ہوگے تو جان جائے گی
کہ راہ دیکھی ہے اس نے حیا کے آنے کی5؎
پھر اب کی لا ترے قربان جائوں جذبہ دل
گئے ہیں یاں سے وہ سوگند کھا کے آنے کی
خیال زلف میں خود رفتگی نے قہر کیا
اُمید تھی مجھے کیا کیا بلا کے آنے کی6؎
کروں میں وعدہ خلافی کا شکوہ کس کس سے
اجل بھی رہ گئی ظالم سنا کے آنے کی7؎
کہاں ہے ناقہ ترے کان بجتے ہیں مجنوں
قسم ہے مجھ کو صدائے درا کے آنے کی8؎
مرےجنازہ پہ آنے کا ہے ارادہ تو آ
کہ دیر اٹھانے میں کیا ہے صبا کے آنے کی9؎
مجھے یہ ڈر ہے کہ مومن ؔکہیں نہ کہتا ہو!
مری تسلّی کو روزِ جزا کے آنے کی10؎
٭٭٭٭٭
1؎میرے اشک خوں کو دیکھ کر محبوب نے دامن اٹھالیا کہ آلودہ خون نہ ہوجائے لوگ اس ادا کو دیکھ کر ہلاک ہوگئے اور سب کا خون میرے اشک خون کی گردن پر رہا۔
2؎ناصح نے سمجھایا کہ جان جاکر آنے والی نہیں جس سے اُس کی مراد یہ تھی کہ عمر چند روزہ کو مغتنم سمجھو اور عمل خیر کی طرف توجہ کرو۔ عاشق اپنی خوش فہمی سے یہ سمجھا کہ کہ جب زندگی کا اعتبار نہیں تو جہاں تک ہوسکے کاروبارِ عاشقی سے غافل نہ رہنا چاہیے۔ مر چلا یعنی مرنے لگا عشق کرنے لگا۔
3؎؎شمیم سلسلہ مشک سازلف مشکیں کی بو۔ جس طرح آنکھ سرمہ کی طالب ہوتی ہے میرے دیدہ ہائے زخم زلف مشکیں کی شمیم کا انتظار کر رہے ہیں۔ زخم کو شکل کے اعتبار سے آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سرمہ ۔ دیدہ سلسلہ مشک سا میں رعایت ہے۔
4؎کاشانہ محبوب میں ہوا کا گزر نہیں۔ شاعر اس کی توجیہ یوں کرتا ہے کہ ہوا کے ذریعے سے میرے داغ عشق (جو گُل سے مشابہ ہے) کی بو غیر کے دماغ میں پہونچتی ہے۔ اس وجہ سے ہوا کی بندش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر کو نکہت ِ گل داغ کیوں پسند آنے لگی۔ وہ اس لذت سے واقف ہی نہیں۔
5؎اگر تم خلوت میں مجھ سے بے حجاب نہ ہوگے تو میری جان جائے گی ۔ مان کہ خلوت میں آمد و رفت کی راہیں بند ہیں۔ تا ہم جس راہ سے تمھاری حیا یہاں آگئی اُسی راہ سے میری روح کا نکل جانا بھی ممکن ہے۔
6؎زلف کی محبت میں مجھ لذت کش ایذا کو بلا کے آنے کی امید تھی۔ مگر خیال زلف میں اس قدر بیخودی رہی کہ مجھے بلا کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی اور اُس کا خیر مقدم کرنے سے قاصر رہا۔ زلف کو بلا سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسی مناسبت سے عاشق بلا کش نزول بلا کا مشتاق تھا۔
7؎اگر مصرع اول میں “سے “کے بجائے “کی” ہو تو عبارت زیادہ صاف ہوجائے۔ یعنی محبوب تو درکنار اجل بھی وعدہ خلاف نکلی اور آنے کی خبر سنا کر رہ گئی۔ اب کس کس کی وعدہ خلافی کی شکایت کی جائے۔
8؎درا بمعنی جرس یعنی گھنٹہ۔ قافلہ یا ناقہ کی گھنٹی ۔ یہاں آخر الذکر مراد ہے۔ مجنوں! مجھے صدائے جرسِ ناقہ لیلیٰ کا کہیں پتہ نہیں۔ تجھے جو صداے جرس کا گمان ہے یہ در اصل تیرے کان بجتے ہیں۔
9؎میرے جنازے کے اٹھانے میں دیر کیا ہے(صرف) صبا کے آنے کی (دیر)اس لیے اگر شرکت جنازہ مقصود ہے تو جلد آ۔ صبا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عاشق ناتواں کی مشتِ خاک تھوڑی دیر میں اُڑ جائے گی۔
10؎عاشق ہدف ستم ہو رہا ہے۔ اس کا ایک ہمدم (مومن) اسے اطمینان دلاتا ہےکہ قیامت میں ان مظالم کی تلافی ہو جائے گی۔ اس پر وہ کہتا ہے کہ مجھے خوف ہے کہیں مومن یہ باتیں محض میرے دل کے بہلانے کی غرض سے تو نہیں کرتا۔
1؎میرے اشک خوں کو دیکھ کر محبوب نے دامن اٹھالیا کہ آلودہ خون نہ ہوجائے لوگ اس ادا کو دیکھ کر ہلاک ہوگئے اور سب کا خون میرے اشک خون کی گردن پر رہا۔
2؎ناصح نے سمجھایا کہ جان جاکر آنے والی نہیں جس سے اُس کی مراد یہ تھی کہ عمر چند روزہ کو مغتنم سمجھو اور عمل خیر کی طرف توجہ کرو۔ عاشق اپنی خوش فہمی سے یہ سمجھا کہ کہ جب زندگی کا اعتبار نہیں تو جہاں تک ہوسکے کاروبارِ عاشقی سے غافل نہ رہنا چاہیے۔ مر چلا یعنی مرنے لگا عشق کرنے لگا۔
3؎؎شمیم سلسلہ مشک سازلف مشکیں کی بو۔ جس طرح آنکھ سرمہ کی طالب ہوتی ہے میرے دیدہ ہائے زخم زلف مشکیں کی شمیم کا انتظار کر رہے ہیں۔ زخم کو شکل کے اعتبار سے آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سرمہ ۔ دیدہ سلسلہ مشک سا میں رعایت ہے۔
4؎کاشانہ محبوب میں ہوا کا گزر نہیں۔ شاعر اس کی توجیہ یوں کرتا ہے کہ ہوا کے ذریعے سے میرے داغ عشق (جو گُل سے مشابہ ہے) کی بو غیر کے دماغ میں پہونچتی ہے۔ اس وجہ سے ہوا کی بندش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر کو نکہت ِ گل داغ کیوں پسند آنے لگی۔ وہ اس لذت سے واقف ہی نہیں۔
5؎اگر تم خلوت میں مجھ سے بے حجاب نہ ہوگے تو میری جان جائے گی ۔ مان کہ خلوت میں آمد و رفت کی راہیں بند ہیں۔ تا ہم جس راہ سے تمھاری حیا یہاں آگئی اُسی راہ سے میری روح کا نکل جانا بھی ممکن ہے۔
6؎زلف کی محبت میں مجھ لذت کش ایذا کو بلا کے آنے کی امید تھی۔ مگر خیال زلف میں اس قدر بیخودی رہی کہ مجھے بلا کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی اور اُس کا خیر مقدم کرنے سے قاصر رہا۔ زلف کو بلا سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسی مناسبت سے عاشق بلا کش نزول بلا کا مشتاق تھا۔
7؎اگر مصرع اول میں “سے “کے بجائے “کی” ہو تو عبارت زیادہ صاف ہوجائے۔ یعنی محبوب تو درکنار اجل بھی وعدہ خلاف نکلی اور آنے کی خبر سنا کر رہ گئی۔ اب کس کس کی وعدہ خلافی کی شکایت کی جائے۔
8؎درا بمعنی جرس یعنی گھنٹہ۔ قافلہ یا ناقہ کی گھنٹی ۔ یہاں آخر الذکر مراد ہے۔ مجنوں! مجھے صدائے جرسِ ناقہ لیلیٰ کا کہیں پتہ نہیں۔ تجھے جو صداے جرس کا گمان ہے یہ در اصل تیرے کان بجتے ہیں۔
9؎میرے جنازے کے اٹھانے میں دیر کیا ہے(صرف) صبا کے آنے کی (دیر)اس لیے اگر شرکت جنازہ مقصود ہے تو جلد آ۔ صبا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عاشق ناتواں کی مشتِ خاک تھوڑی دیر میں اُڑ جائے گی۔
10؎عاشق ہدف ستم ہو رہا ہے۔ اس کا ایک ہمدم (مومن) اسے اطمینان دلاتا ہےکہ قیامت میں ان مظالم کی تلافی ہو جائے گی۔ اس پر وہ کہتا ہے کہ مجھے خوف ہے کہیں مومن یہ باتیں محض میرے دل کے بہلانے کی غرض سے تو نہیں کرتا۔
تیسری غزل
یہ غزل نو اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ قرار، یار، مزار، عار، بہار، عذار،غبار، پیار، زار،مار اور ردیف “آجائے”ہے۔
میں اگر آپ سے جاؤں تو قرار آ جائے
پر یہ ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو یار آ جائے1؎
باندھو اب چارہ گرو چلے کہ وہ بھی شاید
وصل دشمن کے لیے سوئے مزار آ جائے2؎
کر ذرا اور بھی اے جوش جنوں خوار و ذلیل
مجھ سے ایسا ہو کہ ناصح کو بھی عار آ جائے 3؎
نام بدبختی عشاق خزاں ہے بلبل
تو اگر نکلے چمن سے تو بہار آ جائے4؎
جیتے جی غیر کو ہو آتش دوزخ کا عذاب
گر مری نعش پہ وہ شعلہ عذار آ جائے5؎
کلفت ہجر کو کیا روؤں ترے سامنے میں
دل جو خالی ہو تو آنکھوں میں غبار آ جائے6؎
محو دل دار ہوں کس طرح نہ ہوں دشمن جاں
مجھ پہ جب ناصح بیدرد کو پیار آ جائے7؎
ٹھہر جا جوش تپش ہے تو تڑپنا لیکن
چارہ سازوں میں ذرا دم دل زار آ جائے
حسن انجام کا مومنؔ مرے بارے ہے خیال
یعنی کہتا ہے وہ کافر کہ تو مارا جائے8؎
٭٭٭٭٭
1؎میری تڑپ کا صرف یہ علاج ہے کہ بیخود رہوں ، مگر یہ خوف ہے کہ اگر ایسی حالت میں دوست آیا تو مجھے بیخودی کی وجہ سے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔
2؎عاشق اپنی زیست سے مایوس ہوکر چارہ گروں سے کہتا ہے کہ زندگی میں تو محبوب کے آنے کی کوئی صورت نہ ہوسکی۔ اب ایک تدبیر باقی ہے کہ میرے مزار پر اعتکاف کرنا۔ شاید وہ بھی کسی مقبول الدعوات بزرگ کی قبر سمجھ کر وصل دشمن کی دعا کرانے کے لیے اِدھر آ نکلے اور میری تمنا دیرینہ بر آئے۔
3؎؎میر دیوانگی کی وجہ سے محبوب تو مجھے ملتا نہیں۔ کاش جوش جنوں کے ہاتھوں میری رسوائی اس درجہ کو پہونچ جائے کہ ناصح بھی مجھ سے ملنے میں کراہت کرنے لگے ۔
4؎عاشق بلبل سے (جو بہار کی طالب اور گُل پر عاشق ہے) کہتا ہے کہ خزاں در اصل عشاق کی بدنصیبی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے تو اگر باغ سے جائے تو بہار آ جائے صرف تیرے دم تک چمن میں خزاں ہے۔
5؎عذاب سے عذاب رشک مراد ہے، شعلہ عذار (شعلہ رخسار) اور آتش دوزخ میں مناسبت ہے۔
6؎کلفت بمعنی کدورت یعنی غبار، جب آدمی روتا ہے تو دل خالی ہو جاتا ہے اوروں کا بخار نکل جاتا ہے اگر میں کدورت ہجر کو روؤں تو ڈر ہے کہ جو غبار اب تک دل میں مستور تھا آنکھوں میں جا گزیں ہوجائے گا۔
7؎میں محوِ دلدار ہوں یعنی یادِ یار میں اس قدر محو ہوں کہ اب خود مجھ میں جلوہ یار کا پر تو نظر آتا ہے۔ اس لیے جب کبھی ناصح جیسے بیدرد کو میری حالت پر رحم یا مجھ پر پیار آتا ہے تو میرا جذبہ رشک بھڑک اُٹھتا ہے اور یہ بدگمانی ہوتی ہے کہ کہیں ناصح مجھ کو مظہر جمالِ یار سمجھ کر تو محبت نہ کرتا ہو۔ اس لیے اپنا دشمن جاں ہوں کہ نہ میں ہوں گا نہ ناصح کو مجھ پر پیار آئے گا۔ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ میں ناصح کا دشمن جان ہوں۔
8؎وہ کافر (محبوب) ناراض ہوکر مومن سے کہتا ہے کہ تو مارا جائے۔ ۔۔۔ اس میں بھی اس کافر کو میرے حسن انجام کا خیال ہے۔
چوتھی غزل
اس غزل میں گیارہ اشعار ہیں، اس کا قافیہ مایوس، افسوس، منحوس، طاؤس، معکوس، فانوس، کوس، منکوس، مانوس،پابوس، بطلیموس، سالوس اور ردیف “ہے “ہے۔
تیر ی پابوسی سے اپنی خاک بھی مایوس ہے
نقش پا پر نقش پا ظالم کفِ افسوس ہے1؎
ہائے یاد مرغ مجنوں کی جنوں افزائیاں
میرے سر کو سایہ بالِ ہما منحوس ہے2؎
چشم دریا بار ہے کس کے خیالِ خط میں جو
فلس ماہی داغ افزائے پر طاؤس ہے3؎
کیا یہ مطلب ہے کہ برعکس وفا ہوگی جفا
جو تمھارے عہد نامہ میں خطِ معکوس ہے4؎
یاں جلا یاجی حجابِ شمع رونے اور بھی
سوز پروانہ کو مانع پردہ فانوس ہے5؎
بسکہ شامِ وصل آغازِ سحر میں مرگئے
سینہ کو بی اہل غم کی ہم صداے کوس ہے6؎
غیرتِ آمد شدِ دشمن سے تلوون سے لگی
جل بجھیں گےاب کہ حالِ مشعل منکوس ہے7؎
گر نہو شکر جفائے متصل سے درد سر
لب پہ کچھ کچھ التماسِ جان غم مانوس ہے8؎
نزع میں جی کا نکلنا تیرا آنا ہوگیا
بسکہ مرتے مرتے دل میں حسرتِ پا بوس ہے9؎
شاعری اپنی ہوئی نیرنگیِ دانشوری
جو سخن ہے سو طلسمِ راز بطلیموس ہے10؎
کرچکا ہوں دوراخلاص بتاں میں امتحاں
میں نہ مانوں گا کہ مومن زاہدِ سالوس ہے11؎
٭٭٭٭٭
1؎میری خاک مزار کو بھی یہ امید نہیں کہ تیری قدم بوسی نصیب ہو۔ اس لیے میری خاکِ کف افسوس مَلتی ہے قاعدہ ہے کہ خاک پر جب راہ رو چلتے ہیں اور نقش پا بن جاتا ہے تو کفِ افسوس ملنے کی شکل پیدا ہوتی ہے۔
2؎مرغ مجنوں وہ طائر جس نے مجنوں کے سر میں آشیانہ بنایا تھا۔ بال ہما کا سایہ ممجھ دیوانے کے سر پر پڑا اور معاً اس کو دیکھ کر مجھے مرغِ مجنوں کی یاد آئی جس سے وحشت کو اور ترقی ہوئی۔ اس اعتبار سے سایہ ہما سعید ہونے کے عوض میرے حق میں نحس ثابت ہوا۔
3؎میری آنکھ کس (حسین) کے خط عارض کی یاد میں آنسوؤں کا دریا بہا رہی ہے کہ دریا کی مچھلی کے فلس(سنّے) حسن میں پرِ طاؤسکو رشک رے رہے ہیں۔
4؎عہد نامہ: اقرار نامہ محبت
خط معکوس: وہ تحریر جو الٹی لکھی جائے
5؎پردہ فانوس کی وجہ سے پروانہ جلنے سے محفوظ رہتا ہے یہاں اس کے برعکس اُس شمع رو کے پردہ کرنے سے جی جل گیا۔
6؎اُدھر شب وصل ختم ہوئی اور سحر کا آغاز ہوا اور ادھر ہم نے جان دیدی یہی وجہ ہے کہ ہمارے اقربا کے ماتم کی آواز کوس کی آواز میں مل گئی ہے کوس سے یہاں صبح کی نوبت مراد ہے۔
7؎مشعل منکوس: الٹی یا اوندھی مشعل ، جلتی ہوئی مشعل کو اگر سرنگوں کردیا جائے تو جلد جل بجھتی ہے۔دشمن کی آمد و رفت کے رشک کے باعث میرے تلوؤں سے آگ لگی ہے جس کی وجہ سے میرا مشعل منکوس کا سا حال ہے۔ یقین ہے کہ جلد جل کر خاک ہو جاؤں گا۔
8؎جانِ غم مانوس: وہ جان جسے غم پسند ہو۔ میں تمھاری جفائے پیہم کا شکر کرتا ہوں اور تم کو اس سے بھی سرگرانی ہوتی ہے۔ اگر بارِ خاطر نہ ہو تو میں جانِ غم مانوس کی طرف سے کچھ عرض کروں یعنی شکر ستم کروں۔
9؎مرتے مرتے میرے دل میں تیری پابوسی کی حسرت ہے اس لیے اس حسرت کی وجہ سے نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں گویا میرا دم نکلنا ایسا ہی دشوار ہوگیا جیسے تیرا آنا۔ یعنی دونوں معرض تعویق میں پڑگئے۔
10؎بطلیموس (حکیم یونان) کا طلسم، میر شاعری عقل و خرد کے عجائبات کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے میرے ہر شعر میں طلسم کی کیفیت ہے۔
11؎سالوس: ریاکار، مکّار جس طرح مومن پہلے بتوں کی محبّت میں راسخ تھا۔ اسی طرح اب ترک عشق کے بعد زہد میں بھی یقیناً صادق ہوگا۔
پانچویں غزل
اس غزل میں سترہ اشعار ہیں، اس کا قافیہ آزار، اغیار، دشوار، خار، دیوار، خونبار، یار، طرّار، رفتار،غم خوار، دلدار، عیّار، بیمار، تکرار، طومار، بیدار، اظہار اور اشعاراور ردیف “سے “ہے۔
دیتے ہو تسکین مرے آزار سے
دوستی تم کو نہیں اغیار سے1؎
کچھ نہ سوجھا حسرتِ دیدار سے
سہل چھوٹے مردنِ دشوار سے2؎
داغ خون سے میرے وہ حیراں ہوا
دامن اُلجھا ہے گل بے خار سے3؎
پھوڑ جلد اے بو الہوس سر کو کہ اب
جھانکتے ہیں روزنِ دیوار سے4؎
فصد کی حاجت مجھے کیا چارہ گر
بہ گیا خوں دیدہ خونبار سے5؎
مال کیسا جاں بھی دے کر بوالہوس
گر بنے تو دل چھٹالوں یار سے
مت کرو کنگھی نہ یہ دزدِ حنا
دل چراے طرہ طرّار سے6؎
آہ دورِ چرخ کی کیا خاک اُڑاے
فتنہ برپا ہے تری رفتار سے7؎
کھا گیا جان آکہ دوں اس کو نکال
مَیں نہیں خوش صحبتِ غمخوار سے 8؎
یوں کہے درد آیا اپنی چیز کا
حال دل گر پوچھئے دلدار سے
گر نصیحت گر مَیں سچ ہوں سادہ لوح
تو نبھے گی خوب اُس عیّار سے9؎
کیوں نہ کاٹیں لب اطبّا مرگیا
حال پوچھا تھا تیرے بیمارسے 10؎
وعدہ کرکے وہ نہ آے نامہ بر
تو نے پوچھا ہوے گاتکرار سے
دستِ قاصد کاٹے کیوں ثابت ہے کیا
دزدیِ مضمون مرے طومار سے11؎
ہاے بختِ خفتہ کی یوں جھپکی آنکھ
دشمنوں کے طالعِ بیدار سے12؎
مجھ سے وہ چھپتے پھریں اس کے سوا
اور حاصل عشق کے اظہارسے
کہہ غزل اک اور بھی مومن کہ ہے
شوق اس بت کو ترے اشعار سے
٭٭٭٭٭
1؎تم رقیبوں کی دلجوئی کی غرض سے مجھ پر ظلم کرتے ہو اور اتنا نہیں سمجھتے کہ میرے حال عبرت خیز سے اور ان کی ہمت ٹوٹ جائے گی اور وہ دعویِ الفت سے دست بردار ہو جائیں گے اس سے معلوم ہوا کہ تمھیں ان سے دوستی نہیں ورنہ ایسا نہ کرتے۔
شعر میں مکر شاعرانہ ہے۔
مکر شاعرانہ شعر میں ایسی بات کہی جائے جس کا اصل مقصد کچھ ہو اور ظاہر کچھ اور ہو،بالفاظ دیگر یہ ہے کہ شاعر اپنے مطلب کو اس خوبی سے ادا کرے کہ مخاطب اس میں اپنا فائدہ تصور کرے ۔
اس اصطلاح میں جو کہا گیا ہے کہ بات یوں کہیجائے کہ ایسا محسوس ہو کہ مخاطَب کا فائدہ ہورہا ہے لیکن اصل فائدہ کہنے والے یعنی متکلم کا ہو ۔متکلم طالب ہے اور مخاطَب مطلوب ۔ دونوں اشعار ضیا صاحب نے مثالاً درج کیا ہے :
ہے دوستی تو جانب دشمن نہ دیکھنا::جادو بھرا ہوا ہے تمھاری نگاہ میں
اگر تم کو دشمن (رقیب) سے دوستی ہے تو اس کی طرف نظر نہ کرنا ، کیوں کہ تمھاری نظروں میں جادو بھرا ہوا ہے جس سے وہ غریب مسحور ہو کر دیوانہ ہوجائے گا۔ اس شعر میں شاعرانہ مکر ہے۔
2؎مجھے حسرت دیدار بار میں اس قدر محویت رہی کہ آسانی سے جان نکل گئی اور موت کی تکالیف کا احساس تک نہ ہوا۔
3؎داغ خوں کو گل سے تشبیہ دی جاتی ہے مگر اس قدر فرق ہے کہ اس گل میں خار نہیں ہوتا۔ قاتل اپنے دامن پر میرے خون کا داغ دیکھ کر حیران ہے۔ گویا اُس کا دامن ایسے گل سے الجھ گیا ہے جس میں خار نہیں ۔ خیال میں ندرت ہے۔
4؎وہ پردہ نشیں روزن دیوار سے جھانک رہا ہے۔ اے رقیب جلد اپنا سر پھوڑ کہ اس کو ذوقِ تماشا کے لیے کچھ سامان چاہیے۔ مبادا اُس کی زحمت ِ نظر رائگاں جائے۔
5؎میری آنکھوں سے خون بہ گیا اور جو فصد کا مقصد تھا حاصل ہوگیا۔
6؎دزد حنا: مہندی کا چور۔ہاتھ کی مچھلی: سفیدی جو حنالگانے کے بعد ہاتھ میں رہ جائے۔
طرہ طرّار: زلف چالاک۔ میرا دل جو تمہاری زلف میں ہے۔ کنگھی کرنے میں یہ خوف ہے کہ ہاتھ میں جو دزد حنا ہے وہ زلف سے دل نہ چرالے۔
7؎میری آہ دَور چرخ کو کیا تباہ کرے کیوں کہ اصل میں تو تیری رفتار سے دنیا میں فتنہ بپا ہے۔ اس کا کیا علاج ہوگا۔ فتنہ چرخ مٹ گیا تو کیا اور قائم رہا تو کیا۔
8؎ہمدم(یا ناصح) سے مَیں خوش نہیں۔ تم آؤ تاکہ مَیں اِس کو نکال دوں اور تمھاری موجودگی میں اس کی غمخواری کی ضرورت نہ رہے۔
9؎نصیحت گر(ناصح)نے کہا کہ تم سادہ لوح ہو تم کو اس عیّار (معشوق) سے دور رہنا چاہیے۔مبادا اُس کے دام میں گرفتار ہوجاؤ۔ عاشق جواب دیتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو خوب نبھے گی کیوں کہ سادہ لوحی کی وجہ سے مجھے اُس کی عیّاریوں کا احساس کیوں ہونے لگا۔
10؎تیرے بیمار ناتواں سے اطبّا نے حال پوچھا ہی تھا کہ وہ اس صدمے سے مرگیا۔
لب کاٹنا : افسوس کرنا۔
11؎شرع میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ طومار: خط۔ مکتوب
12؎آنکھ جھپکنے سے یہاں خفیف و خجل ہونا مراد ہے۔
تیسری اکائی
اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں
٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
حسرت موہانی
٭“کلیاتِ حسرت”
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
فانی بدایونی
٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی
٭ابتدائی دس غزلیں
جگر مرادآبادی
٭ “آتشِ گل”
٭ابتدائی دس غزلیں
اصغر گونڈوی
٭“نشاطِ روح”
٭ابتدائی دس غزلیں
یگانہ چنگیزی
٭ “آیاتِ وجدانی”
٭ابتدائی دس غزلیں
فراق گورکھپوری
٭ “گلِ نغمہ”
٭ ابتدائی دس غزلیں
مجروح سلطان پوری
٭“غزل”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
کلیم عاجز
٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
شہر یار
٭ “اسمِ اعظم”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
عرفان صدیقی
٭“عشق نامہ”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں