Hasrat Mohani:Hayat-O-Khidmat

حسرت موہانیؔ کی حیات و خدمات

نام: سید فضل الحسن

تخلص: حسرتؔ(وہ اپنے تخلص اور وطن کی نسبت سے حسرت موہانی کے نام سے مشہور ہوئے کہ ان کا اصلی نام کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ ایک غزل کے مقطع میں انھوں نے فخریہ لہجے میں شکوہ بھی کیا تھا

جب سے عشق نے کہا حسرتؔ مجھے

کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

والد: سید ازہر حسن(ان کیاولا: چارلڑکے:سید روح الحسن، سید فضل الحسن، سید کریم الحسن اور سید مبین الحسن اور تین لڑکیاں ؛سلیمۃالنساء، نسیبۃالنساء اور منیبۃالنساء

داد: سید مہر الحسن                                        والدہ: شہر بانو

خاندان: سید محمود نیشاپوری اپنے وطن نیشاپور سے 611ھ مطابق 1214-15ء میں سلطان شمس الدین ایلتوتمش کے عہد میں ہندوستان آئےاورموہان میں سکونت اختیار کی۔ یہی حسرت ؔکے جد اعلا تھے۔سید محمود نیشاپوری کے دو لڑکے تھے،؛ سید منتخب؛ سید جمال الدین، حسرت کا خاندان سید منتخب کی اولاد سے ہے۔ انھوں نے نیشاپور سے اپنے تعلق کا اظہاراس شعر میں کیا ہے:؎

کیوں نہ ہوں اردو میں حسرت ہم نظیریؔ کی نظیر

ہے تعلق ہم کو آخر خاکِ نیشاپور سے

پیدائش: 1298ح مطابق 1881ء نانیہال موہان

مذہب و طریقت: حسرتؔ مذہباً حنفی اور مشرباً قادری تھے۔ان کا پورا خاندان شاہ عبدالرزاق فرنگی محل کا ارادت مند تھا، ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند و جانشین مولانا عبدالوہاب سے بیعت کی۔

شوق: کہانیاں سننا، ، تیراکی، پتنگ بازی

ابتدائی تعلیم: پانچ سال کی عمر میں موہان کے میاں جی سیدغلام علی کےمکتب میں تعلیم کے لیے بٹھائے گئے ،قرآن شریف، فارسی، عربی، سکندرنامہ، بہاردانش، اخلاقِ محسنی، اور انشائےابوالفضل جیسی کتابیں چھوٹی عمر میں پڑھ ڈالیں، مکتب سے مڈل تک کی تعلیم موہان میں حاصل کی، مڈل کا ایک امتحان موہان اور دوسرا چھلوتر سے دیا اور دونوں میں اوّلآئے، تمام صوبے میں اوّل آنے کی وجہ سے وظیفہ حاصل کیا ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول فتح پور سے میٹرک کا امتحان1898ء میں اوّل درجے سے حاصل کیااور پورے ضلع میں اوّل آئے۔ وہاں مولانا سیّد ظہور الاسلام اور مولانا نیاز فتح پوری کے والد مولانا محمد امیرخاں سے فارسی پڑھتے۔

شاعری کا آغاز: عتیق صدیقی عارف  ہسوی کے حوالے سے لکھتے ہیں “حسرت کی شاعری کی نشو و نما اورپرورش فتح پورہی میں ہوئی۔ لیکن فتح پور جانے سے پہلے موہان ہی میں انھوں نے شاعری شروع کردی تھی۔ کلیات حسرت کے آخر میں ضمیمہء دیوان حسرت کے عنوان سے ان کی وہ غزلیں ملتی ہیں جو 1894ء سے لے کر 1903ء تک انھوں نے کہی تھیں۔ جنوری 1902ء کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میگزین میں “نظم” کے عنوان سے حسرت کی ایک طویل نظم ملتی ہے۔

علی گڑھ کی تعلیم: میٹرک کے بعد علی گڑھ کا رخ کیے ، وہ جب علی گڑھ شرفائےاودھ کا لباس پہنے اور ساتھ میں اودھ کی پرانی روایت کا پاندان ہاتھ میں لیے پہنچے تو وہاں کے طلبہ نےانھیں اس لباس میں دیکھ کر ‘خالہ جان’ کا خطاب دیا۔لیکن جلد ہی طالب علم ان کو عزت و احترام کی نظرو ں سے دیکھنے لگے۔یلدرم کے الفاظ میں “اِسے ان کے اوصاف حمیدہ کا نتیجہ سمجھو یا ان کی خوش نصیبی کا کہ پورا سال بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ خالہ جان ، نے عدم کی راہ لی اور اس کی بجائے ‘مولانا’ بچّے سے بوڑھے کی زبان پر جاری ہوگیا”۔وہ 1903ء میں علی گڑھ  سے بی۔اے کیا۔ پھر ایل ۔ ایل ۔ بی کے پہلے سال میں داخلہ لیااور اس وقت کے کالج پرنسپل ماریسنکووظیفہ کے لیے دیا لیکن و ہ رد کر دئیے تو حسرت مایوس ہوکر تعلیم ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیئے۔

شادی: 1901ء میں شبیر حسن موہانی کی صاحبزادی “نشاط النساءبیگم ” سے شادی ہوئی۔ان کا انتقال ایک طویل علالت کے بعد 18اپریل 1937ء کو  کان پور میں ہوا۔ وہ 37 سال تک حسرت کی شریک زندگی رہیں۔دوسری شادی 1938ء میں حبیبہ بیگم سے ہوئی۔

اولاد:نشاط النساء سے صرف ایک لڑکی 1907ء میں پیدا ہوئی جس کا نام نعیمہ ہے، اور دوسری بیوی سے بھی ایک لڑکی 1939ء میں پیدا ہوئی جس کا نام حسرت نے خالدہ رکھا۔

مطالعے کا شوق: طالب علمی کے زمانے سے مطالعے کا بہت شوق تھا، جب کوئی دلچسپ کتاب ہاتھ لگ جاتی تو بغیر پڑھے نہ چھوڑتے اور اس کے مطالعے میں ایسے محوہوجاتے کہ کھانے تک کی سدھ بدھ نہ رہتی ۔ ان کی والدہ نوالے بنا بنا کر منھ میں رکھتی رہتیں اور حسرت کتاب پڑھنے میں مشغول رہتے۔

سیاست:حسرتؔ موہانی جنگ آزادی کے صفِ اول کے مجاہد تھے، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی، انہوں 1921ء میں احمدآباد کے کانگریس اجلاس میں ہندوستان کی کامل آزادی کی تجویز پیش کی، اس کو کھلے اجلاس میں پیش کیا تو کسی نے ان کے حق میں ہاتھ نہیں اٹھایا لیکن اسی بات کو 1929ء میں جب پنڈت جواہرلال نہرو نے پیش کیا تو سب نے ان کی تائید کی۔ 14/اگست 1947ء کو ہندوستان دوحصّوں میں تقسیم ہوا۔ مولانا ہندستان میں رہنا پسند کیے۔ وہ ہندوستانی پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے۔

جیل : تین بار جیل گئے، 23جون 1908ء میں بغاوت کے جرم میں، دوسال کی گرفتاری اور پانچ سو روپے جرمانہ۔

دوسری بار، 13 اپریل 1916ء کو جیل گئے،تیسری 14 اپریل 1921 میں

تصانیف:

کلیات حسرت کا تذکرہ اگلے کلاس میں کریں گےوہ تیرہ جلدوں پر مشتمل ہے

پہلا۔ شرح دیوان ِ غالب: 1905میں شرح کے ساتھ شائع ہوا

دوسرا۔ نکات ِسخن: یہ تین رسالوں کا مجموعہ متروکاتِ سخن۔ معائب سخن۔ محاسن سخن کا مجموعہ ہے۔ شعرائے اردو کے کلام کے وسسیع مطالعہ سے مولانا حسرت کو شعر کے حسن و قبح کے متعلق جو واقفیت ہوئی اس کو ان رسالوں میں جمع کردیا۔

تیسرا۔ مشاہداتِ زنداں : پہلی قید فرنگ کی نہایت دلچسپ اور موثرسرگزشت۔ جس میں 23جون 1908سے 19جون 1909تک کے واقعات ہیں

چوتھا۔ انتخاب سخن: یہ اردو زبان کے تمام مستند اور صاحبِ دیوان شعرا کے کلام کا نایاب انتخاب ہے ۔ اس کی گیارہ جلدیں ہیں۔

جلد اوّل:سلسلہ حاتم: (13 شعرا) انتخاب دیوان شاہ حاتم، انتخاب دیوانِ بقا، رنگین، نثار، بیدار، تاباں، ماہر، امیر، بیتاب، عشرت، طالب، معروف، شاہ نصیر

جلد دوم: سلسلہ ذوق: (چار شعرا)انتخاب دواوین ذوق۔ انتخاب دواین داغؔ، رس، جگر

جلد سوم: سلسلہ مومن: (چار شعرا) مومن، نسیم، تسلیم، حسرت

جلد چہارم: سلسلہ مظہر: (پانچ شعرا) حسرت، یقین، حزیں، شاطر، بیان

جلد پنجم: سلسلہ جرات: (چودہ شعرا) دیوانِ جرات، حسرت، غضنفر، رضا، رفت، رضوی، محنت، نصرت، معروف، محب، جلال، شائق، نساخ، وحشت                               جلد ششم: سلسلہ مصحفی: (تین شعرا) مصحفی، مسرور، منتظر

جلد ہفتم: سلسلہ آتش                                  جلد ہشم: سلسلہ اسیر وامیر                             جلد نہم: سلسلہ ناسخ

جلد دہم: سلسلہ غالب                                 جلدیازدہم: اساتذہ متفرق

اردوئےمعلیٰ کا اجراء: بی اے کرنے کے بعد اردوئےمعلیٰ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا، شہرمیں مسٹن روڈ بعدہ رسل گنج سے جولائی 1903ء کو نکالا۔اس سے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔یہ مٹیالے رنگ کے معمولی کاغذ پر چھپتا تھا اور شروع میں 24 اور 48 صفحے کانکلتاتھامگر بعد میں صفحے بھی کم ہوگئے۔ اردوئےمعلیٰ تین بار نکلا اور بند ہوا اس  لیے اس کو تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں

پہلا دور:۔ جولائی 1903 تا مئی 1908ء                         دوسرا دور:۔ اکتوبر1909ء تا اپریل 1913ء

تیسرا دور :۔ جنوری1925ء تا مارچ 1942ء

ایک سہ ماہی رسالہ “تذکرۃالشعراء” نکالا جو 1920ء میں بند ہوگیا، بعدہ ایک اخبار” مستقل” 1928ء میں جاری کیاجو 1929ء تک روزانہ اور 1930، 1931اور1933ء میں دو روزہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ نکلتا رہااور 1936ء سے یہ “اردوئےمعلی” کے ضمیمے کے طور پر شایع ہونے لگا۔

وفات: حسرتؔ کی صحت 1949ء سے آہستہ آہستہ گرنے لگی تھی، 1950ء میں آخری بار حج کیا اس سے پہلے دس بار فریضہء حج ادا کرچکے تھے گویا انھوں نے کل گیارہ حج کیے۔ اسہال کبدی کی بیماری نے ان کو بہت کمزور کردیاآخر کار 13/مئی 1951ء کو حسرتؔ کا انتقال ہوگیا اور انوار باغ کے فرنگی محل قبرستان میں اپنے پیر و مرشد کے برابر سپرد خاک کیے گئے۔

کلیات حسرت

منتخب اشعار کی تشریح

ردیف الف

غزل:1

اس  غزل میں چھ اشعار ہیں اس کا قافیہ سپاس، قیاس، قیاس ، لباس، ہراس، حواس، یاس ہے اور قافیہ “کا” ہے:

لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا جب کہ صفات یار میں دخل نہ ہو قیاس کا
سِپاس: شکر گزاری
عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہانِ بے خودی جان خزینہ بن گئی حیرت بے قیاس کا
بے خودی: بدحواسی، بے خبری، بیہوشی، وجد خزینہ: خزانہ، گنج، ذخیرہ، مخزن
رونق پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنین اور بھی شوخ ہوگیا رنگ تیرے لباس کا
جسم نازنین کی خوبی پیرہن کی رونق ہوئی شوخ: تیز، چمکیلا
لطف و عطائےیار کی عام ہیں بسکہ شہرتیں قلب گنہگار میں نام نہیں ہراس کا
بس کہ :چوں کہ، القصہ، حاصلِ کلام، غرض ہراس: خوف، دہشت، تنگی، ناامیدی
دل کو ہو تجھ سے واسطہ لب پہ ہو نام مصطفٰی وقت جب آئے اے خدا خاتمہ حواس کا
طے نہ کسی سے ہو سکا تیرے سوا معاملہ
جان امیدوار کا حسرتؔ محو یاس کا
یاس: نااُمیدی

غزل:2

اس  غزل میں نواشعار ہیں، اس کا قافیہ آرا، تمنا، شکیبا، برپا، بے جا، ایسا، دریا، اُجالا،اشارا، دونااور ردیف “کردیا”ہے:

حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا کیاکیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
خود بین: اپنے مفاد پرنظر رکھنے والا، اپنی ذات کا پجاری خود آرا: خود پسند  
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بےتابیاں ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
شکیبا: صابر، قانع، مضطرب، بے صبر
ہم رہے یاں تری خدمت میں سر گرمِ نیاز تجھ کو آخر آشنائے ناز بے جا کر دیا
نیاز: اظہار محبت، التجا، عاجزی ناز: فخر، غرور، عزت، گھمنڈ ناز و نیاز: ناز و نخرہ، لاڈو پیار، آن و انداز
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی اضطراب شوق نے اک حشر برپا کر دیا
حشر برپا کرنا: اودھم مچنا، ہنگامہ ہونا
اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار اس نگاہ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا
عشق سے تیرے بڑھے کیاکیا دلوں کے مرتبے مہر ذروں کو کیاقطروں کو دریا کر دیا
مِہر: سورج، آفتاب
کیوں نہ ہو تیری محبت سے منور جان و دل شمع جب روشن ہوئی گھر میں اجالا کر دیا
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
سب غلط کہتے تھے لطف یار کو وجہ سکوں
درد دل اس نے تو حسرتؔ اور دونا کر دیا
دونا: دوگنا

غزل:3

اس  غزل میں پانچ اشعار ہیں، اس کا قافیہ طرحداری، بیداری، گرفتاری،ستمگاری،ہوشیاری ، افطاری اور ردیف “کا”ہے:۔

رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرحداری کا طُرفہ عالم ہے ترے حُسن کی بیداری کا
طرحداری: خوبصورتی، خوش اندازی، خوش  وضعی طُرفہ: انوکھا، عجیب، عمدہ
مایۂ عشرت بے حدہے غم ِقیدِ وفا میں شناسا بھی نہیں رنجِ گرفتاری کا
مایہ: مال و دولت، عشرت: خوشی وشادمانی، عیش و نشاط، سرور
جورِپیہم نہ کرے شانِ توجہ پیدا دیکھ بدنام نہ ہونا م ستمگاری کا
ستمگاری: ظلم و زیادتی
ہیں جو اے عشق تری بے خبری کے بندے بس ہو اُن کا تو نہ لیں نام بھی ہُشیاری کا
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرتؔ
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

غزل:4

اس  غزل میں چھ اشعار ہیں، اس کا قافیہ جانا، زمانا، ٹھکانا، ستانا، نشانا، فسانا، سنانا، اور اس غزل میں کوئی بھی ردیف نہیں ہے۔

تجھ سے وہ مِلا شوق سے اور تو نے نہ جانا حسرتؔ کو ابھی یاد ہے تیرا وہ زمانا
ہے ایک در پیر مغاں تک تو رسائی ہم بادہ پرستوں کاکہاں اور ٹھکانا
پیرمغاں: مرشد کامل، بزرگ، سالک بادہ پرست: شرابی، (عاشق)  
مخصوصِ غم عشق ہیں ہم لوگ ہمارا اچھا نہیں اے گردشِ افلاک ستانا
گردشِ افلاک: آسمان کی گردش، انقلاب زمانہ، زمانہ کی گردش مجاز مرسل
صد شکر غم ہر دو جہاں سے ہے وہ فارغ جو دل ہے ترے تیرمحبت کا نشانہ
اب عشق کا وہ حال نہ ہے حسن کا وہ رنگ باقی ہے فقط عہدِ تمنا کا فسانا
آتی ہے تری یاد سو حسرتؔ کو شب غم
ہر بار اُسے افسانہ دل کہہ کے سنانا

غزل:5

اس  غزل میں آٹھ  اشعار ہیں، اس کا قافیہ رنجور، دستور، مجبور، مغرور، پر نور، دور/طور، منظور، مخمور، گورکھپوراور ردیف “کا”ہے۔

کوئی بھی پرساں نہیں حالِ دلِ رنجور کا یہ ستم دیکھو دیارِ شوق کے دستور کا
رنجور: غمگین، حسرت زدہ دیار:علاقہ، شہر، گھر
جاتے جاتے رہ گیا وہ نازنیں صبحِ وصال ناز بردارِ اثر ہوں گریہ مجبور کا
نازبردار: ناز اٹھانے والا، عاشق
سر اٹھائے بزمِ جاناں میں بھلا کِس کی مجال رُعب غالب ہے یہ اُس کے جلوہِ مغرور کا
ہے غضب کی دلفریبی آج حسنِ ماہ میں بھر بھی دے اک جام ساقی بادہء پر نور کا
استعارہ:
خاطرِ مایوس میں نقشِ اُمید ِ وصلِ یار نور ہے صحرا میں گویااک چراغ دور/طور کا
تلمیح  
یک قلم بے سُود ہے اِظہارِ حالِ آرزو حسنِ بے پروا کے آگے عشقِ نا منظور کا
یک قلم: بالکل، سراسر، تمام، یکلخت، ایک دم، فی الفور، یک بارگی
مستیِ عیشِ دو عالم کی نہیں پروا مجھے  دیکھنے والا ہوں میں اِس نرگسِ مخمور کا
ہے سپردِ خاک حسرتؔ واں جو اک یارِ عزیزؔ
قصداک مدّت سے ہم رکھتے ہیں گورکھپور کا
عزیز اللہ مرحوم گورکھپوری کہ یکے از عزیزترین احبابِ فقیر بود(حسرتؔ)

ردیف “م”

غزل:1

اس  غزل میں انیس اشعار ہیں مطلع کا شعر:

روشِ جمالِ یار سے ہے انجمن تمام دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام
حیرت غرورِ حسن سے شوخی سے اضطراب دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسمِ یار کی خوبی کہ خود بخود!! رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
دل ِ خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشمِ یار کی جادونگاہیاں بیہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام
ہے نازِ حسن سے جو فروزاں جبینِ یار لبریزآ بِ نور ہے چاہِ ذقن تمام
نشو ونمائے سبز و گل سے بہار میں شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام
اس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام گلزاربن گئی ہے زمینِ دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں پھیلے گی یوں ہی شورشِ حبِّ وطن تمام
سمجھے ہیں اہلِ شرق کو شاید قریبِ مرگ مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
شیرینی نسیم ؔہے سوز و گدازِ میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

دیوان دوم

غزل:2

اس  غزل میں سات اشعار ہیں اس کا قافیہ مجبور، دور، دستور، رنجور، حور، مسرور، مذکور، پور اور ردیف “سے ہم”ہے:

کیا ہی شرمندہ چلے ہیں دلِ مجبور سے ہم آئے تھے ان کی زیارت کو بڑی دور سے ہم
دیکھنا ایک نظر بھی انھیں ٹھہرا ہے گناہ درخورِ عفو ہیں واقف نہ تھے دستورسے ہم
اس کے غمخوار بنے کیا کہ ہوئے خود بھی خراب کاش مانوس نہ ہوتے دِل رنجور سے ہم
یاد میں تیری نہ دنیا ہی سے بیزار تھادِل خُلد میں بھی تو مخاطب نہ ہوئے حور سے ہم
ربطِ باہم کی ہو کیا شکل کہ آگاہ نہیں دِلِ رنجور سے تم، خاطرِ مسرور سے ہم
غلبہ ء یاس نے اس درجہ ڈرایا ہے کہ اب دور ہی بھاگتے ہیں عیش کے مذکور سے ہم
حسرتؔ آئے گی تسلّی کو یہاں رُوحِ شمیم
قید ہو آئے ہیں جھانسی جو للت پوُر سےہم

عبداللہ خاں مرحوم شمیمؔ ، مدفن جھانسی

غزل:3

اس  غزل میں نواشعار ہیں اس کا قافیہ باہم، فراہم، ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی بھی ردیف نہیں ہے۔

تصوّر میں وہ شوخ تھا ہم سے باہم عجب لذّتِ بے خودی تھی فراہم
سب آئے پر اک تو نہ آیا، نہ آیا ترا دیر دیکھا کیے راستا ہم
جدائی کی حد بھی کوئی ہے مقرّر! رہیں تجھ سے اے یار کب تک جدا ہم
غمِ یار اے تیرے بسمل ہزاروں ادھر بھی ہواک دار تجھ پر فدا ہم
رہا بسکہ عشقِ بُتاں مسلکِ دل نہ جانا کسی نے کہ ہیں باخدا ہم
ترا ہوکے دل اب نہ ہوگا کسی کا!! چھٹے سب جو تجھ سے ہوئے آشنا ہم
کہاں دل کہاں وصلِ جاناں کی خواہش کُجا وہ شہنشاہِ خوباں کجا ہم
ترے ہوتے بیشک یہ ہے کفرِ نعمت جورکھیں کسی اور کا آسرا ہم
جہاں بٹتی ہے بادشاہی کی دولت
اسی در کے ہیں ایک حسرتؔ گدا ہم

خطیب دہلی میں 1916 میں یہ غزل شائع ہوئی۔

غزل:4

اس  غزل میں نواشعار ہیں اس کا قافیہ بھلا، مبتلا، خفا، یا، سزا، قضا، روا، بقا، التجا، رضااور ردیف “ہم” ہے:

جفا کو وفا سمجھیں کب تک بھلا ہم اب ایسے بھی ان کے نہیں مبتلا ہم
عجب ہیں یہ راز و نیاز محبت خفا کیوں ہوئے وہ ہیں اس پر خفا ہم
نہ شیرین و لیلیٰ نہ فرہاد و مجنوں زمانے میں اب ایک یا تم ہو یا ہم
یہ کیا منصفی ہے کہ محفل میں تیری کسی کا بھی ہو جرم پائیں سزا ہم
ترے جور کا ہے تقاضہ کہ دیکھیں ابھی کچھ دنوں اور راہ قضا ہم
غریبوں سے کہتی ہے رحمت یہ ان کی کہ ہیں بینواؤں کے حاجت روا ہم
 تری راہ میں مر مٹیں بھی تو کیا ہے فنا ہو کے پائیں گے عیش بقا ہم
تری خوئے برہم سے واقف تھی پھر بھی   ہوئے مفت شرمندۂ التجا ہم
امیری میں ہو یا فقیری میں حسرتؔ
بہر حال ڈھونڈھیں گے ان کی رضا ہم

ردیف یا

غزل:1

اس  غزل میں سات اشعار ہیں اس کا قافیہ راز، ناز، دراز، ساز، امتیاز، باز، نواز، سرفرازہے اور قافیہ “کرے” ہے:

‏ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے
غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے
ساز باز کرنا: میل ملاپ کرنا، ربط ضبط بہم پہنچانا، ہمراز ہونا
امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے
سزاوار:لائق، قابل، مستحق

غزل:2

اس  غزل میں نواشعار ہیں، اس کا قافیہ خرابی، شرابی، گلابی، جوابی، خوابی، باریابی، بے حجابی، جوابی، کتابی، رکابی اور اس میں کوئی ردیف نہیں ہے:

لایا ہے دل پہ کتنی خرابی اے یار تیرا حسن شرابی
پیراہن اس کا سادہ  رنگین یا عکس مئے سے شیشہ گلابی
عشرت کی شب کا وہ دورِ آخر نورِ سحر کی وہ لا جوابی
پھرتی ہے اب تک دل کی نظر میں کیفیت ان کی وہ نیم خوابی
بزم طرب ہی وہ بزم، کیوں ہو ہم غمزدوں کو واں باریابی
اس نازنیں نے با وصفِ عصمت کی وصل کی شب وہ بے حجابی
شوق اپنی بھولا گستاخ دستی دل ساری شوخی حاضر جوابی
شوخی: بے باکی، چنچل پن، تیزی،
وہ روئے زیبا ہے جانِ خوبی ہیں وصف جس کے سارے کتابی
زیبا: زینت دینے والا، آراستہ، بنا سنورا کتابی: مثلِ کتاب، معتبر
اس قید غم پر قربان حسرتؔ
عالی جنابی گردوں رکابی
گردوں رکاب: بادشاہوں کی صفت

غزل:3

اس  غزل میں گیارہ اشعار ہیں، اس کا قافیہ کیا، چھپا، سنا،بنا،جگا، بُھلا، جدا، پڑھا، لگا، دوا، کھُلا، بڑھااور ردیف “رکھا ہے”ہے:۔

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے ٍ اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
ٍسخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ     وہ یاد کہ اس یاد کو ہو کر مجبور دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
کیا تأمل  ہے مرے قتل میں اے بازو ِیار ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے
تامل: پس و پیش، تذبذب
حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو کہ اسے یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے داغ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو نام اسی کا دل مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
پیکان: برچھی کی انی (پیک کی جمع)
اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے

غزل:4

اس  غزل میں چھ اشعار ہیں، اس کا قافیہ نظر، کدھر، نظر، بسر، اثر، کمر، سحر، اور ردیف “لے کے گئی ہے”ہے۔

دل کو تری دزدیدہ نظر لے کے گئی ہے اب یہ نہیں معلوم کدھر لے کے گئی ہے
دزدیدہ: کن انکھیوں سے دیکھنا
اُس بزم سے آزردہ نہ آئے گی محبت آئینِ وفا مدّنظر لے کے گئی ہے
آزردوہ: افسردہ، دل شکستہ،  
جب لے کے گئی ہے ہمیں تا کوئے ملامت مجبوریِ دل خاک بسر لے کے گئی ہے
کوئے: گلی، کوچہ
پہلے ہی سے مایوس نکیوں ہوں کہ دعا کو قسمت مری محرومِ اثر لے کے گئی ہے
اللہ رے کافر ترے اس حُسن کی مستی جو زلف تری تا بہ کمر لے کے گئی ہے
مغموم نہ ہو خاطر حسرتؔ کہ تلکؔ تک
پیغامِ وفا بادِ سحر لے کے گئی ہے

غزل:5

اس  غزل میں انیس اشعار ہیں:

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭“کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ “آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭“نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ “آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ “گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭“غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ “اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭“عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!
Enable Notifications OK No thanks