شادؔ عظیم آبادی
میں وہ موتی ترے دامن میں ہوں اے خاک بہار
آج تک دے نہ سکا ایک بھی قیمت میری
ڈھونڈوگےاگرملکوں ملکوں ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ائے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم
نام: سید علی محمد
تخلص: شاد(سید شاہ الفت حسین صاحب فریاد نے ہی یہ تخلص تجویزکیا۔
خطاب: خان بہادر
پیدائش: 8/جنوری 1846ء کو پٹنہ محلہ پورب دروازہ شہر عظیم آباد (نانیہال)
والد: سید اظہار حسین عرف عباس مرزا
دادا: سید تفضل علی خاں
تعلیم: شاد نے ابتدائی تعلیم سید رمضان علی، سید فرحت حسین، شیخ برکت اللہ سے حاصل کی۔ فارسی شیخ آغا جان ، محمد رضا شیرازی سے پڑھی۔ عربی سیّد علی اعظم، سید مہدی شاہ کشمری، حکیم گلزارعلی، شیخ محمد علی لکھنوی سے پڑھی ۔ ابتدا میں اپنی غزلوں پر اصلاح میر تصدّق حسین زخمیؔ اور ناظر وزیرعلی عبرتیؔ سے لی اور ادبیات و فنونِ شاعری کی کتابیں انہیں دونوں سے پڑھیں لیکن فن شاعری کی تکمیل اپنے استاد سید شاہ الفت حسین فریادؔ سے کی۔
شاعری کا آغاز: سید صاحب پانچ چھ ہی برس کے تھے کہ طبیعت رنگ دکھانے لگی اکثر اردو کے شعر بہت جلد یاد کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ سات آٹھ برس کی عمر میں آپ نے تلنگی پر اپنی یہ شعر موزوں کرکے لکھا؎
جو کوئی اس تلنگی کو لوٹے ::گرپڑے ہاتھ پاؤں سر ٹوٹے
سید شاہ الفت حسین فریادؔسے جو پہلی غزل کی اصلاح لی تھی اس کا مطلع ہے:
جب سے اس ابرو نے پیدا تیغ عالمگیر کی:: آبرو جاتی رہی آبِدمِ شمشیر کی
شادی : شاد نے دو شادیاں کیں پہلی شادی 1862ء میں کلثوم بنت میر آغا عرف میر سنگی جان سے ہوئی جس کے بطن سے سید حسین 1880 ء میں پیدا ہوئے، اور اسی دن اس بچے کی ماں کا مرض استسقاء کے سبب انتقال ہوا، دوسری شادی 1886ء میں زہرہ بیگم خواہر احمد میر نواب سے ہوئی، جن کے بطن سے ایک لڑکی آمنہ بیگم پیدا ہوئیں۔
اسفار: کئی مرتبہ شاد کو پٹنہ سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ کلکتہ 1886، 1890، 1903میں گئے ، مرشد آباد 1910ءمیں، دارجلنگ 1895میں، بھاگلپور 1896اور 1925ء میں، مظفر پور 1912ء میں ، بنارس 1901ء، لکھنؤ1889 اور 1900میں، دہلی، پانی پت اور علی گڑھ 1897ء میں اور جونپور اور کانپور 1916ءمیں۔ان کی آخری تمنا تھی کہ وہ کسی صورت سے حیدر آباد پہنچ جاتے لیکن یہ تمنا ان کی پوری نہ ہوسکی۔
معمول زندگی: وہ تین بجے رات کو بیدار ہوتے تھےاور حوائج ضروری اوراوراود و وظائف سے فراغت کے بعد اوّلِ وقت نماز صبح ادا کرکے سادی چائے پیتے اور ساتھ ہی بہت تھوڑا سا ناشتہ کرتے تھے، اور تصنیف میں لگ جاتے تھے باربجے دن تک لکھتے رہتے، اس کے بعد چاول یا روٹی شوربے سے کھا کر دو گھنٹے آرام کرتے ، بیدار ہونے کےبعد امراض کی تکالیف سے شام تک کوئی کام نہیں کر پاتے، شام کے بعد اگر آنکھوں نے ساتھ دیا تو دو تین گھنٹے لکھنے یا مطالعہ کتب میں صرف کرتے تھے۔ بارہ بجے شب کو سوتے تھے۔
صحت: شاد دبلے پتلے تھے، بچپن میں تین دفعہ طحال کا مرض ہوا پھر انیس برس کی عمر سے ضعف معدہ، بواسیر، اختلاج قلب وغیرہ کے امراض میں مبتلا ہوگئے، پھر دفعۃً کمر سے دونوں پاؤں کے ناخن تک اور دونوں ہاتھ کہنیوں سے لے کر انگلیوں کے سرے تک شل اور بےحس ہوگئے، دس مہینوں تک اسی عارضے نے پریشان رکھا۔
وظیفہ و خطاب: شاد کو حکومت نے پہلے چھ سو روپے سالانہ اور پھر ایک ہزار روپے سالانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی حکومت نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا تھا۔ 1891ء میں انہیں خاں بہادر’ کا خطاب عطا ہوا تھا۔ پھر بتیس برس تک آنریری مجسٹریٹ رہے اور چودہ برس تک حکومت کے نام زد کردہ میونسپل کمشنر بھی رہے۔
عقائد:”سیّد صاحب کا دادھیال خاندان شیعہ مذہب اور نانیہال میں شیعہ و سنی دونوں تھے لیکن آپس میں کسی قسم کا ظاہراً و باطناً تعصب و نفاق نہیں ہے۔
تلامذہ: “گلشن حیات” میں 52 تلامذہ کا ذکر ہے، کلیم الدین احمد نے 102 کا ذکر کیا ہے۔
تصانیف
نبیرہ شادجناب نقی احمد ارشاد صاحب نے لکھا ہے کہ شاد ؔنے چھوٹی بڑی نظم ونثر کی تقریباً ساٹھ کتابیں چھوڑیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ شاد نے بارہ سو غزلیں، سات سوکے قریب رباعیات اور 48 مرثیے لکھے، ہر مرثیہ تقریباً دو سو بندوں پر مشتمل ہے۔ آٹھ مطبوعہ مثنویاں ہیں ، جو نالہ شاد، نالہ دلکش، نغمہءجاں فزا، یاد حبیب، چشمہء کوثر، ثمرہءزندگی،فغانِ دلکش اور نوید ہند کے نام سے موجود ہیں۔ کچھ غیر مرتب مثنویاں بھی ہیں۔ جو بقول نقی احمد ارشادؔ دس بارہ ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
الف۔ شعری تصانیف:
(غزلیات)
1۔ انتخاب کلامِ شاد مرتبہ حسرت موہانی مطبوعہ 1909
2۔ ریاض عمر مطبوعہ 1914ء
3۔ کلامِ شادؔ مرتبہ قاضی عبدالودود مطبوعہ 1922ء
4۔ میخانہء الہام مرتبہ حمید عظیم آبادی مطبوعہ 1938
5۔ بادہء عرفاں مرتبہ سید محمود علی خاں صباؔ مطبوعہ 1961ء
6۔ زبورِ عرفاں مرتبہ سید تقی احمد ارشاد مطبوعہ 1963ء
7۔ لمعات شاد مرتبہ فاطمہ بیگم مطبوعہ 1964ء
8۔ شادؔ عظیم آبادی۔ کلام اور شرحِ کلام مرتبہ سید نقی احمد رشاد مطبوعہ 1967ء
ان کے چھ مجموعہ کلام “کلام شاد” “میخانہ الہام”، “کلام اور شرح کلام”، “بادہءعرفاں” ، “زبور عرفاں” اور “لمعات شاد”
(مولود)
ظہور رحمت: مطبوعہ 1931ء
(مراثی)
مراثی شاد جلد اول و دم :مرتبہ عبدالحمیدوسیدنقی احمد ارشاد
(مثنوی)
طلسم کدہ ء دنیا (نامکمل)
مثنویات شادؔ مرتبہ سید نقی احمد ارشاد مطبوعہ 1971ء
(قطعات)
سروش ہستی قطعات اردو مرتبہ سید نقی احمد ارشاد وحمید عظیم آبادی مطبوعہ 1958
(نظم)
فروغ ہستی مرتبہ سید نقی احمد ارشاد 1959ء
(رباعیات)
رباعیات شاد(95) رباعیاں)مسمیٰ بہ گنجینہء عرفان مرتبہ حمید عظیم آبادی مع انگریزی ترجمہ (منظوم) از سر نظامت جنگ بہادر ، مطبوعہ 1946ء
ب۔ نثری تصانیف:
نثری تصنیف کی ابتدا “نصائح الصبیان“سے ہوتی ہے۔ یہ کتاب بچوں کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے لکھی گئی ہے۔
تاریخ صوبہ بہار: اردو میں شاید یہ بہار کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ کتاب شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم کے دوران قیام عظیم آباد میں لکھی گئی
صورۃالخیال: مولوی حسین علی مرحوم مسلم مشنری بھاگلپور کی ترغیب پر 1876ء میں ایک ناول لکھا، اس کا دوسرا حصہ ہئیۃالمقال، اور تیسرا حصہ حلیۃالکمال کے نام سے شائع ہوا۔
نوائے وطن: اردو اور اپنے وطن کی محبت میں ایک کتاب لکھنی شروع کر دی جس کا مبارک نام نوائے وطن ہے، جتنا جتنا مسودہ لکھتے جاتے مطبع میں چھپنے کے لیے بھیجتے جاتے ۔ اس کتاب میں اپنے ہم وطنوں کو ان کے اغلاط و نقائص کی طرف سختی سے متوجہ کیا۔
نصاب تعلیم اردو و فارسی و عربی کی چھ کتابیں سید صاحب نے سہولت تعلیم کے خیال سے تصنیف کی ہیں:
1۔ اردو تعلیم: چار جزوں کی کتاب ہے
2۔ فارسی تعلیم: دس بارہ جزوں کی ہے
3۔ الصرف، 4۔النحو، 5۔ المنطق: یہ تینوں کتابیں عربی تعلیم کے لیے سید صاحب نے لکھ کر نصاب مرتب کر دیا ہے۔ طریقہ ادائے مطالب میں سہولت و جدت سے کام لیا ہے۔
6۔ ذخیرۃالادب: یہ جخیم کتاب ہے ۔ اس میں ادب، فن شاعری وزبان دانی کے متعلق بارہ چودہ ابواب ہیں۔
کشکول: سید صاحب نے کتابوں کے مطالعہ کے وقت جو بات دل پسند ہوئی ، ٹانک لی۔ رفتہ رفتہ دس بارہ جزو کی کتاب ہوگئی۔
کتاب ترجمۃالاسلاف: جناب سر اسٹوارٹ بیلی صاحب بہادر کے ایما پر اپنے خاندان کے بیان میں لکھی ہے۔
کتاب مردم دیدہ: جن جن نامی گرامی وغیرہ باکمال یا عام شرفا کو مصنف نے دیکھاہے یا ان سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ سب کے مختصر حالات بقدر علم کے اس کتاب میں لکھ دیےہیں۔قریب قریب سات سو شرفا کا ذکر اس میں لکھا گیا ہے۔
مجموعہ لکچر تصحیح تاریخ: نواب سرفراز حسین خاں صاحب کے گھر پر اکثر شایقین تاریخ ِ ہندوستا ن جمع ہوا کرتے تھےاور سید صاحب تاریخی مضامین کے لکچر دیا کرتے تھے۔ پندرہ سولہ جلسے ہوئے اس کا مجموعہ ہے۔
رسالہ یومیہ: یہ رسالہ پانچ چھ جزو کا عربی زبان میں ہے، اس میں عقائد اور اعمال مذہب شیعہ کو نہایت فصیح عربی میں مدرسہ محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ کے لیے ایک دن میں تصنیف کیاہے۔ جناب مولوی محمد حسن مرحوم شمس العلماء صادق پوری بانی مدرسہ کی فرمایش سے یہ رسالہ لکھا گیاہے۔
وفات
7/ جنوری 1927ء 11بجے شب میں 81/ سال کی عمر میں انتقال فرمایااور اپنے ذاتی مکان شادؔمنزل ، پٹنہ سیٹی میں مدفون ہوئے، بوقت انتقال اپنا ہی یہ شعر ورد زبان تھا:
آخر ہے عمر، ضیق میں ہے دم بھی جان بھی ::مردانہ باش، ختم ہے یہ امتحان بھی
شاد ایک دبستان کے بانی تھے، جسے دبستانِ عظیم آباد کہتے ہیں۔
تیسری اکائی
اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں
٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
شاد عظیم آبادی
٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
حسرت موہانی
٭“کلیاتِ حسرت”
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
فانی بدایونی
٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی
٭ابتدائی دس غزلیں
جگر مرادآبادی
٭ “آتشِ گل”
٭ابتدائی دس غزلیں
اصغر گونڈوی
٭“نشاطِ روح”
٭ابتدائی دس غزلیں
یگانہ چنگیزی
٭ “آیاتِ وجدانی”
٭ابتدائی دس غزلیں
فراق گورکھپوری
٭ “گلِ نغمہ”
٭ ابتدائی دس غزلیں
مجروح سلطان پوری
٭“غزل”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
کلیم عاجز
٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
شہر یار
٭ “اسمِ اعظم”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
عرفان صدیقی
٭“عشق نامہ”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں