غزل کا فن، آغاز اور ارتقا Urdu Ghazal: Fan, Aghaz Aur Irtaqa
تعارف
اردو شاعری میں غزل کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی مگر جو قبولِ عام غزل کو حاصل ہوا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہ ہوسکا۔ پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے اسے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہاہے۔ تنقید کے آغازسے ہی غزل کی مخالفت بھی شروع ہوگئی۔ حالی کو اس میں سنڈاس کی بدبو محسوس ہوئی، کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی صنف سخن ٹھہرایا، عظمت اللہ خاں نے مشورہ دیا کہ غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینی چاہیے۔ ایسی شدید مخالفت کے باوجود غزل کی مقبولیت میں ذرا برابر کمی نہ آئی ، اضافہ ہوتا رہا۔
غزل بنیادی طور ر ایک داخلی صنفِ سخن ہے، یعنی غزل کا شاعر وہی بیان کرسکتا ہے جواس کے دل پر گذری ہو، شاعر کے دل پر گزرنےوالی کیفیات وہی ہوتی ہیں جو دوسروں پر بھی بیت چکی ہوتی ہے، لہذا پڑھنے والے یا سننے والے کو غزل میں اپنی داستان سنائی دیتی ہے ۔ اس طرح غزل میں آپ بیتی جگ بیتی بن جاتی ہے۔
غزل عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا
مختلف علمائے فن اپنی بساط روّیے اور ذوق کے مطابق غزل کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ کسی نے غزل کی عورتوں سے بات کرنا بتایا، کسی نے جمالِ معشوق کا ذکر اور احوالِ عشق و محبّت ِ باہمی کے بیان کو غزل کہا، کسی نے اسے ایسے نوائے درد کہا جو خلشِ الم کے ساتھ ساتھ قلب و رح کےلیے انبساط کا سامان مہیا کرتی ہے۔
غزل دراصل مخصوص لفظیات اور علامتوں کے ذریعے حسن و عشق، کیفیات و واردات ِ عشق، اخلاق و تصوف ، فلسفہ و حکمت، اسرار و رموزحیات و کائنات کی عقدہ کشائی اور زمانے کے حالات و کوائف بیان کرنے کا فن ہے۔ جس میں حاوی رجحان حسن و عشق کا ہے۔غزل کی مخصوص لفظیات سے مراد یہ ہے کہ غزل تمام شعری اصناف میں نازک ترین صنف ہے جو نامانوس، ثقیل، ادق، بعید از فہم الفاظ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
غزل کے اجزائے ترکیبی میں: مطلع، مقطع، ردیف، قافیہ اور بحر شامل ہیں۔
غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔
شعر کا وزن کرنے یا اسے ناپنے کے پیمانے بحر کہلاتے ہیں جو چھوٹی بڑی بھی ہوسکتی ہیں اور آسان یامشکل بھی۔ یہ فن عروض کہلاتا ہے۔
ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا وہ مجموعہ ہے جسے ہر شعر کے آخر میں دہرایاجائے۔ اس سے پہلے قافیہ ہوتا ہے جس کا آخری حرف یاآخر کے چند حرف یکساں ہوتے ہیں۔ ہم وزن و ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
پروفیسر مسعود حسین خاں لکھتے ہیں “غزل کے پاؤں میں ردیف پایل یا جھانجھن کا حکم رکھتی ہے، یہ اس کی موسیقیت، ترنم، موزونیت کو بڑھاتی ہے۔”
غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلّص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔
مطلع یا مقطع لانا لازمی نہیں لیکن مطلع کے بغیر غزل ناقص الاوّل اور مقطع کے بغیر ناقص الآخر معلوم ہوتی ہے
حسنِ مطلع (زیب مطلع) مطلع کے فوراً بعد آنے والے شعر کو کہتے ہیں۔
گیان چند جین کے مطابق ایک مطلع کے بعد دوسرا مطلع آئے تو اسے حسنِ مطلع کہتے ہیں۔
فاروقی صاحب کا موقف تھا کہ دوسرے مطلع کو مطلع ثانی، تیسرے کو مطلع ثالث کہیں گے، حسن مطلع صرف اس پہلے شعر کو کہیں گے جس کے پہلے مصرع میں قافیہ نہ ہو۔
دلِ ناداں تجھے ہواکیا ہے:: آخر اس درد کی دواکیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار:: یا الٰہی یہ ماجراکیا ہے
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو براکیا ہے
غزل کے سب سے عمدہ شعر کو بیت الغزل کہا جاتا ہے۔
غزل کا ہر شعر اپنے معنی الگ دیتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر مل کر معنی دیتے ہیں تو انھیں قطعہ بند کہا جاتا ہے۔
غزلِ مسلسل میں مختلف اشعار میں ایک معنوی ارتباط و ارتقا ہوتا ہے۔
غزل کے شاعر کو دو مصرعوں میں مکمّل مضمون ادا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ اختصار اور رمز و کنایے سے کام لینے پر مجبور ہے۔
غزل کے اشعار کی تعداد کسی نے کم سے کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ گیارہ بتائی لیکن دوسروں نے کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ پچیس مقرر کی لیکن ان میں سے کسی کی پابندی نہیں کی گئی۔
کم سے کم چار اور پانچ ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سترہ اگر اس کے بعد اور اشعار کہنے ہوں تو درمیان میں ایک مطلع کہنا ضروری ہے۔
ویسے قاعدہ یہ ہے کہ ایک زمین میں زیادہ اشعار ہوجانے پر انھیں کئی غزلوں میں بانٹ دیتے ہیں اور انھیں دو غزلہ، سہ غزلہ وغیرہ کہتے ہیں۔
بحرالفصاحت کے مطابق امداد علی بحر اور مولوی مذاق نے ہفت غزلہ تک لکھا ہے۔
زمین: غزل کی ردیف و قافیہ و وزن کو ملا کر زمین کہتے ہیں۔ بحرالفصاحت میں لکھا ہے
“زمینِ غزل مراد ردیف و قافیہ سے ہے مع قیدِ بحر کے۔”
غزل کا آغاز و ارتقا
غزل کی ابتدا عربی میں ہوئی، وہاں سے یہ ایران پہنچی اورفارسی میں اس نے بہت ترقی کی۔ فارسی ادب کے راستے یہ اردو میں داخل ہوئی اور خاص و عام میں مقبول ہوگئی۔اردو غزل کے ابتدائی سفر میں جو نام ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں سلطان محمد قلی، سلطان محمد قطب شاہ ، خاکیؔ، نوریؔ اور غواصیؔ اہم ہیں جن کی شاعری غزل کے رنگ ڈھنگ کے ابتدائی نقوش معلوم ہوتے ہیں ۔ اردو غزل کو پہلی دفعہ ہئیتی سطح پر ولی دکنی نے ہی مرتب مزین کیا اور اس صنف کے لیے مستقبل کی راہیں کھول دیں اسی لیے انھیں اردو غزل کا “ابوالآباء” کہا جاتا ہے۔ ولی کے ہم عصر دکنی شعرامیں سراجؔ، داؤد، عزلت اور عاجزخصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
شمالی ہند کے فارسی شعرا ولی ؔ کا کلام دیکھ کر ہی اس طرف متوجہ ہوئےاور غزل کا ڈنکا ہر چہار جانب بجنے لگا۔ شمالی ہند میں پہلے دور کے شاعروں میں خان آرزو، شرف الدین مضمونؔ، یکرنگ، آبرو، فغاں، شاکرؔ، اور شاہ حاتمؔ وغیرہ اہم ہیں۔ جنھوں نے ولی کی پیروی میں غزل کی صنف میں طبع آزمائی کی اس کے بعد غزل کا وہ دور سامنے آیا جسے عہد زریں کے نام سے یاد کرتے ہیں یعنی میرؔ و سوداؔ کا عہد۔ اس عہد میں غزل کی صنف نے خوب خوب ترقی کی۔ میرؔنےغزل کو غزل نے میرؔ کو لافانی بنادیا۔خواجہ میردردؔ نے اس عہد میں غزل کو ایک اور لب و لہجہ عطا کیا اس طرح اس عہد کی غزل سادگی، سلاست، تصوف، داخلی اور وجدانی کیفیات کی ترجمانی وغیرہ نے غزل کو دلکش و دلپذیربنادیا۔ پھر غالب اور مومن کے عہد میں غزل نے اپنے اندر وسعت پیدا کی مضامین میں جدت و ندرت نظرآنے لگی، عشق و محبت اور فکر و فلسفہ کی آمیزش نے غزل کو مئے دو آتشہ بنادیا۔ غالب و مومن تک غزل کے ارتقائی سفر میں مصحفی، انشا، جراتؔ آتش و ناسخ وغیرہ شریک رہے۔ اس طرح دہلی دبستان سے الگ لکھنوی دبستان نے اپنی ایک شناخت قائم کی جہاں داخلیت کے بجائے خارجیت پر زور ملتا ہے۔
اس سے قبل کہ اردو غزل اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہوئی شاعر مشرق محمد اقبال تک پہنچے دو اہم ناموں کا تذکرہ ضروری اور لازمی ہے اور وہ نام ہیں داغؔ دہلویاور امیر مینائی جن کی غزلوں کی بعض دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں اردو غزل کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ دہلی اور لکھنؤ کے مزاج شاعریکا امتزاج ملتا ہے ۔ علامہ اقبال کی غزلیہ شاعری بھی اپنے اندر وہی نکتہ سنجی رکھتی ہے جو نظم میں اقبال ؔ کی خاصیت ہے۔ اس دور کے بعد جگرؔ، اصغرؔ ، فانی، حسرت،اور شاد اہم شاعر ہیں بعد ازاں فراقؔ اردو غزل کی دنیا میں ایک نئی آواز کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ اس آواز کے ساتھ ناصر کاظمی کا حزن شامل ہوتا ہے۔ اور فیض کی انقلابی لے اور پھر آگے بڑھ کر مجروح ؔ کا تغزل، مجاز کی انقلابیت، سردار جعفری اور پرویزشاہدی کی بلند آہنگی ۔ پھر 1960ء کے بعد غزل کا لہجہ یکسر تبدیل ہوتا ہے اور یہ عہد نو کے تقاضوں کا استقبال کرتی ہے۔ ان میں حسن نعیم، شاذ تمکنت، منیر نیازی، شہرت بخاری، اور فراز، ظفراقبال، شکیب جلالی، جون ایلیا، مظہر امام، شہریار، مخمورسعیدی، سلطان اختر، عرفان صدیقی، کشور ناہید، پروین شاکر، وغیرہ غزل کو نئے تجربات اور نئے ذائقے سےروشناس کراتے ہیں۔
غزل سے متعلق اقوال
بقول فراق
“غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہےA series of climaxes یعنی حیات و کائنات کے وہ مرکزی حقائق جو انسانی زندگی کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں تاثرات کی انہیں انتہاؤں یا منتہاؤں کا مترنم خیالات و محسوسات بن جانا اور مناسب ترین یا موزوں ترین الفاظ و اندازِ بیان میں ان کا صورت پکڑ لینا اس کا نام غزل ہے۔” (غزل کی ماہیئت و ہئیت۔ فراق گورکھپوری)
رشیداحمد صدیقی
غزل جتنی بدنام ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے۔
غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔
غزل شاعری نہیں تہذیب بھی ہے۔
شاعری کا نام آتے ہی میرا خیال غزل کی طرف مائل ہوتا ہے۔
شاعری زیور کی محتاج ہے اور زیور غزل کی محتاج ہے۔
فراق گورکھپوری
غزل شاعری نہیں عطر شاعری ہے۔
غزل مختلف پھولوں کی مالا ہے۔
غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے۔
شبلی نعمانی: غزل کا خمیر عشق و محبت ہے۔
آل احمد سرور: غزل کافر صنف سخن ہے۔ غزل چاول پر قل ھو اللہ لکھنے کا آرٹ ہے۔
عظمت اللہ خاں: غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینی چاہئے۔
کلیم الدین احمد: غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے۔
الطاف حسین حالی : غزل بے وقت کی راگنی ہے۔
قصیدہ اور غزل شاعری کے ناپاکدفترہیں اور عفونت میں سنڈاس سے بھی بدتر ہیں۔
تیسری اکائی
اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں
٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
حسرت موہانی
٭“کلیاتِ حسرت”
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
فانی بدایونی
٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی
٭ابتدائی دس غزلیں
جگر مرادآبادی
٭ “آتشِ گل”
٭ابتدائی دس غزلیں
اصغر گونڈوی
٭“نشاطِ روح”
٭ابتدائی دس غزلیں
یگانہ چنگیزی
٭ “آیاتِ وجدانی”
٭ابتدائی دس غزلیں
فراق گورکھپوری
٭ “گلِ نغمہ”
٭ ابتدائی دس غزلیں
مجروح سلطان پوری
٭“غزل”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
کلیم عاجز
٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
شہر یار
٭ “اسمِ اعظم”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
عرفان صدیقی
٭“عشق نامہ”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
Thanks