Kulliyat-e-Shaad ki radeef BA ki ibtedai 5 Ghazlen

کلیاتِ شاد

ردیف "ب" کی ابتدائی پانچ غزلیں KULLIYAT-E-SHAAD ki radeef BE ki ibtedai 5 Ghazlen

ردیف "ب"

اس ردیف سے سات غزلیں ہیں جن میں سے پانچ غزلیں نصاب میں شامل ہیں۔

پہلی غزل

یہ غزل دس اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ عیاں، کہاں، درمیاں، ارمغاں، مکاں،یہاں، نہاں،مسواں، کہاں، جناں، یہاں اور ردیف  "آتش و خاک و باد و آب” ہے۔

میرے سبب سے تھے عیاں آتش و خاک و بادوآب

میں نہ رہا تو پھر کہاں آتش و خاک و باد و آب

خلوتِ ناز میں تھا میں اور وہ شوخ بے حجاب

بے سبب آئے درمیاں آتش و خاک و باد و آب

جب نہ ملا عدم میں کچھ قابلِ نذر دوستاں

لے کے چلے ہم ارمغاں آتش و خاک و باد و آب

جب کہ خیال ودہم ہیں تابع حکم اے حکیم

پہونچیں گے تا بہ لا مکاں آتش و خاک و باد و آب

ایسے پڑے ہیں کتنے ہی جن میں نہیں دوئی کا میل

سمجھے ہیں صرف ہم یہاں آتش و خاک و باد و آب

لے کے چلا جو کا رواں ساتھ وہ شہہ سوار حسن

گرد میں ہوگئے نہاں آتش و خاک و باد و آب

روح مری ادھر اُدھر جائے گی ساتھ سایہ دار

ہوں گے جدھر جدھر رواں آتش و خاک و باد و آب

جب وہ نہیں کہ جس سے تھا ایک کو دوسرے سے ربط

میل کے ساتھ پھر کہاں آتش و خاک و باد و آب

جی نہ لگے گا روح کا اپنے ندیم کے بغیر

جائیں گے سب سوئے جناں آتش و خاک و باد و آب

کہتے تھے شادؔ لوگ سچ ایسوں کی دوستی ہی کیا

روح سے چھٹ گئے یہاں آتش و خاک و باد و آب

دوسری غزل

یہ غزل چودہ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ اثر، کر، خبر، اگر، خبر، کر، سفر، جدھر، سفر، کر، خطر، تر، نظر، تر، اِدھراور ردیف "آخر شب”ہے۔

نالہء دل میں تو پایا نہ اثر آخر شب

اے دعا تو مجھے محروم نہ کر آخر شب

اکثر اے درد جگر تجکو بھی غافل پایا

کون لیتا ہے مریضوں کی خبرآخر شب

شام سے یاس نے گھیرا تجھے ناحق اے دل

جاتی ہے عرش تلک آہ اگر آخر شب

خود بخود غنچہ ء خاطر ہے شگفتہ میرا

دل نے کس بات کی پائی ہے خبر آخر شب

واسطہ ضبط کا آغاز شب فرقت کے

چشم تر تو مجھے شرمندہ نہ کر آخر شب

دور جانا ہے مسافر تجھے کیسی ہے یہ نیند

چونک مل آنکھ اٹھا زاد سفر آخر شب

جھاڑتی جاتی ہے و راہ صَبا بالوں سے

بوئے گُل باغ سے جاتی ہے جدھر آخر شب

ٹھنڈے ٹھنڈے دل سوزاں سے نکل جا اے روح

کرتے ہیں موسم گرما میں سفر آخر شب

مطمئن ہو تو خدا کے لیے کچھ عرض کروں

دردِ دل بس، مجھے بے چین نہ کر آخر شب

بے خود دل نہ اڑا کر کہیں لے جائے مرا

بیشتر چور کا رہتا ہے خطر آخر شب

کہیں اس سیل میں بہہ جائے نہ دفتر غم کا

جوش اپنا نہ دکھا دیدہء ترآخر شب

شوقِ دیدار میں عالم ہے یہ آنکھوں کا مری

جیسے جاگے ہوئے انساں کی نظر آخر شب

ہوگیا دل کو یقیں صاف کہ پانی برسا

بستر اپنا ہوایوں اشکوں سے تر آخر شب

تیرے کوچے میں کہیں شادؔنہ ہو پوچھ تو لے

اک بڑا شور تھا نالوں کا اِدھر آخر شب

تیسری غزل

یہ غزل سولہ اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ خراب، تاب، جواب، صواب، کامیاب، خراب،باب، شباب، جواب،کتاب، خطاب، آب، صواب، حساب، جواب،کلاب ہیں۔یہ غزل آشوب زمانہ ہے۔

فائدہ اے شادؔ کیا تکمیل سے
یہ زمانہ ہے پُر آشوب و خراب
ہر طرف ہے جہل کا بازار گرم
اہل فن کیوں کہ نہ کھائیں پیچ و تاب
مدّعی علم ہر بے ربط ہے
کیاہے اس جہل مرکب کا جواب
جاہلانِ علم و معنی و بدیع
ہادیان شاہ راہ ناصواب
طبع موزوں پر بھروسا نظم میں
بے پڑھے سارے فنوں میں کامیاب
پسلیاں بندش سے توڑیں شعر کی
اصطلاحوں کی کریں مٹی خراب
معنی تصنیف سے بھی بے خبر
کرسکیں ہرگز نہ فرقِ فصل و باب
با کمالوں سے بھڑیں، آ آ کے وہ
تا کہے ذی معرفت ہر شیخ و شباب
خود غلط، املا غلط، انشا غلط
یوں سخن فہموں کو دیں اکثر جواب
اس زمیں میں ہے ہماری بھی غزل
ہم نے بھی اس فن میں لکھی ہے کتاب
صرف اس تقریر پر بھی بس نہ ہو
سخت گوئی سے کریں اکثر خطاب
امتیاز رطب و یابس کچھ نہ ہو
ایک ہو ان کی نظر میں خاک و آب
نظم ہوں کوٹھوں کے مضموں شعر میں
فحش باتیں، کل مضامیں ناصواب
ہجو میں آل نبی کی منہمک
محو دل سے پرسش روز حساب
بے سرو پا اعتراضوں پر غرور
کاملوں سے اس پہ خواہان جواب
خندہ ام آید ازیں طامات مفت
لا ابالی صوتہم صوت الکلاب

چوتھی غزل

اس  غزل میں بارہ اشعار ہیں، اس کا قافیہ تقصیر، تقدیر، تصویر، تیر، تقریر، زنجیر، تقریر، پیر، تعمیر،شبگیر، تاخیر، تدبیر اور ردیف "کا جواب”ہے۔

کیا منہ جو دے سکوں تری تقریر کا جواب

بخشش تری ہے خود مری تقصیر کا جواب

لکھے گا یار کیا مری تحریر کا جواب

دیکھا نہیں نوشتہ ء تقدیر کا جواب

آئینہ لے کے ہاتھ میں کہتا ہوں یار سے

لایا ہوں ڈھونڈھ کر تری تصویر کا جواب

صیاد جاں شکار ہے ترچھی نظر تری

ترکش میں ایک بھی نہیں اس تیر کا جواب

اتنا ہوا کہ دل میں اترنے لگی ہے بات

دیں گے وہ سوچ کر مری تقریرکا جواب

زنداں میں غل مچانے لگی ہے جو بے محل

کڑیاں کڑک کے دیتی ہیں زنجیرکا جواب

ناز اپنی گفتگو پہ نہ کر او فضول گو

خاموشیاں ہیں اِس تری تقریرکا جواب

ایسا نہ ہو کہ دست ستم کو لگے نظر

اے نوجواں نہ دے فلک پیر کا جواب

دل میں ہے گرد غم تو کدورت مزاج میں

تعمیر جیسے ہوتی ہے تعمیر کا جواب

جی میں یہ ہے کہ آپ حلق اپنا گھونٹ دوں

سوچا ہے میں نے نالہ ء شبگیرکا جواب

قاصد کو چلتے وقت قسم دی رسول کی

ہاں میرے پاس اب نہیں تاخیر کا جواب

اے شادؔ ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی گئے

موت آکے دے گئی مری تدبیر کا جواب

پانچویں غزل

اس  غزل میں پانچ اشعار ہیں، اس کا قافیہ لطافت، کثافت، آفت، لطافت، محبت، شرافت اور ردیف "کےسبب”ہے۔

شمع فانوس میں ہے اپنی لطافت کے سبب

روشنی بند ہے شیشے کی کثافت کے سبب

رنج سے ہوتی ہے ہرچند بشر کو تکلیف

تو بھی انسان ممیّز ہے اس آفت کے سبب

تب تو ہے خاک میں بھی شعلہ ء جنبانِ حیات

کیوں الگ رہ نہ سکی روح لطافت کے سبب

ابنِ آدم ہوں مرے دم سے جہاں کی رونق

قدسیوں سے بھی میں اعلیٰ ہوں محبت کے سبب

کہنے والے مجھے جو چاہیں کہیں کیا پروا

سن کے خاموش ہوں اے شاد شرافت کی سبب

تیسری اکائی

  

غزل کا فن اور ارتقا

اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری

ولی دکنی :حیات و خدمات

٭کلیات ولی

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی کی ابتدائی پانچ غزلیں

میر تقی میر: حیات و خدمات

٭انتخابِ کلامِ میر

٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں

مرزا اسد اللہ خاں غالب

٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ر کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ن کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

مومن خاں مومن

٭دیوانِ مومن

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

شاد عظیم آبادی

٭"کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

حسرت موہانی

٭"کلیاتِ حسرت”

٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں

٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں

 فانی بدایونی

٭ "کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی

٭ابتدائی دس غزلیں

 جگر مرادآبادی

٭ "آتشِ گل”

٭ابتدائی دس غزلیں

 اصغر گونڈوی

٭"نشاطِ روح”

٭ابتدائی دس غزلیں

 یگانہ چنگیزی

٭ "آیاتِ وجدانی”

٭ابتدائی دس غزلیں

 فراق گورکھپوری

٭ "گلِ نغمہ”

٭ ابتدائی دس غزلیں

مجروح سلطان پوری

 ٭"غزل”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 کلیم عاجز

٭"وہ جو شاعری کا سبب ہوا”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

شہر یار

٭ "اسمِ اعظم”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

 عرفان صدیقی

 ٭"عشق نامہ”

٭ ابتدائی پانچ غزلیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!