دیوانِ مومن
ردیف "الف" کی ابتدائی پانچ غزلیں
deewan e momin ki radeef Alif ki ibtedai 5 Ghazlen
پہلی غزل
یہ غزل انیس اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ شہادت، دقّت، طاقت، حیرت، خجالت، جنّت، رسالت،فکرت، حسرت، اِجابت، قیامت، عیادت، ضلالت، سنّت، بدعت، شہادت، امامت، حکومت، حضرت اور ردیف “کا “ہے۔
نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا1؎
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا
بچاؤں آبلہ پائی کو کیوں کر خارِ ماہی سے
کہ بامِ عرش سے پھسلا ہے یارب پاؤں دقت کا
سرشکِ اعترافِ عجز نے الماس ریزی کی
جگر صد پارہ ہے اندیشہء خوں گشتہ طاقت کا
نہ یہ دستِ جنوں ہے اور نہ وہ جیبِ جنوں کیشاں
کہ ہو دستِ مژہ سے چاک پردہ چشمِ حیرت کا
نہ دے تیغِ زباں کیوںکر شکستِ رنگ کے طعنے
کہ صف ہائے خرد پر حملہ ہے فوجِ خجالت کا
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بے زار دوزخ سے، نہ میں مشتاق جنت کا
گلوے خامہ میں سرمہ مدادِ دودہء دل ہے
مگر لکھنا ہے وصفِخاتمہ جلدِ رسالت کا
نہ پوچھ گرمیِ شوقِ ثنا کی آتش افروزی
بنا جاتا ہے دستِ عجز شعلہ شمعِ فکرت کا
نمک تھا بخت شورِ فکر خوانِ مدح شیریں پر
کہ دندانِ طمع نے خوں کیا ہے دستِ حسرت کا
خدایا ہاتھ اٹھاؤں عرضِ مطلب سے بھلا کیوں کر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشہ دامانِ اجابت کا
عنایت کر مجھے آشوب گاہِ حشر غم اک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہو شورِ قیامت کا
جراحت زار اک جان دے کہ جس کی ہر جراحت ہو
نمک داں شورِ الفت سے مزا آئے عیادت کا
فروغِ جلوہء توحید کو وہ برقِ جولاں کر
کہ خرمن پھونک دیوے ہستیِ اہل ضلالت کا
مرا جوہر ہو سر تا پا صفائے مہرِ پیغمبر
مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہو سنت کا
مجھے وہ تیغِ جوہر کر کہ میرے نام سے خوں ہو
دلِ صد پارہ اصحابِ نفاق و اہلِ بدعت کا
خدایا لشکر اسلام تک پہنچا کہ آ پہنچا
لبوں پر دم بلا ہے جوشِ خوں شوقِ شہادت کا
نہ رکھ بیگانہء مہرِ امامِ اقتدا سنّت
کہ انکار آشنائے کفر ہے اس کی امامت کا
امیرِ لشکرِ اسلام کا محکوم ہوں یعنی
ارادہ ہے مرا فوجِ ملائک پر حکومت کا
زمانہ مہدیء موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیو سلامِ پاک حضرت کا
٭٭٭٭٭
1؎مطلع:طلوع ہونے کی جگہ، غزل کا پہلا مصرع
تجنیس تام: جب شعر میں دو ایسے الفاظ استعمال کیےجائیں جن کا تلفظ ایک ہو لیکن معنی مختلف ہو تو اس شعر میں تجنیس تام کا استعمال ہوا ہے۔مثلاً
سب سہیں گے ہم اگر لاکھ برائی ہوگی
پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
دوسری غزل
یہ غزل دس اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ جل، پھل، نکل، ڈھل، مل، جھل، بدل، بل، سنبھل، پھسل، بہل اور ردیف “گیا”ہے۔
آگ اشک گرم کو لگے جی کیا ہی جل گیا
آنسو جو اس نے پونچھے شب اور ہاتھ پھل گیا1؎
پھوڑا تھا دل نہ تھا یہ موئے پر خلل گیا
جب ٹھیس سانس کی لگی دم ہی نکل گیا
کیا روؤں خیرہ چشمی بخت سیاہ کو
واں شغل سرمہ ہے ابھی یاں نیل ڈھل گیا2؎
کی مجھ کو ہاتھ ملنے کی تعلیم ورنہ کیوں
غیروں کو آکے بزم میں وہ عطر مل گیا
اس کوچے کی ہوا تھی کہ میری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آگ پہ پنکھا سا جھل گیا
جوں خفتگانِ خاک ہے اپنی فتادگی
آیا جو زلزلہ کبھی کروٹ بدل گیا
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
کچھ جی گرا پڑے تھا پر اب تو نے ناز سے
مجھ کو گرا دیا تو مرا جی سنبھل گیا
مل جائے گر یہ خاک میں اس نے وہاں کی خاک
گل کی تھی کیوں کہ پاؤں وہ نازک پھسل گیا
بت خانے سے نہ کعبے کو تکلیف دے مجھے
مومنؔ بس اب معاف کہ یاں جی بہل گیا
٭٭٭٭٭
1؎
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ :: رات کاٹی خدا خدا کر کے
ایہام (Ambiguity) صنعتِ شاعری ہے، حسنِ کلام ہے۔
کلام میں کوئی ایسا لفظ لانا ایہام ہے جس سے پڑھنے یا سننے والا قریبی معنی مراد لے (جو ایک اعتبار سے صحیح بھی ہوتے ہیں) جب کہ اس کے اصلی معنی غور و فکر اور تأمل کے بعد واضح ہوں۔
خداخداکرکے (ایہام) یعنی اللہ اللہ کرکے عبادت کرکے اور دوسرا مفہوم ہے مشکل کے ساتھ۔ (پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ ’’نیشنل بُک فاؤنڈیشن‘‘،اشاعتِ چہارم مارچ، 2017ء، صفحہ نمبر 51 سے انتخاب)
2؎نیل کا ڈھل جانا: آنکھ کا بے نور ہو جاناجو علاماتِ موت میں سے ہے۔
تیسری غزل
یہ غزل دس اشعار پر مشتمل ہے، اس کا قافیہ سحر، جگر، گھر، تر، اثر، درد،شرر، کمر، سفر، بر، ثمر اور ردیف “کا سا”ہے۔
لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہو کیا مرے جگر کا سا1؎
نہ جاؤں گا کبھی جنت کومیں نہ جاؤں گا
اگر نہ ہوے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا
کرے نہ خانہ خرابی تری ندامت جور
کہ آب شرم میں ہے جوش چشم تر کا سا2؎
یہ جوش یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا3؎
لگے ان آنکھوں سے ہر وقت اے دل صد چاک
ترا نہ رتبہ ہوا کیوں شگاف در کا سا
ذرا ہو گرمی صحبت تو خاک کر دے چرخ
مرا سرور ہے گل خندۂ شرر کا سا4؎
یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں آتا
مرا بھی حال ہوا تیری ہی کمر کا سا5؎
جنون کے جوش سے بیگانہ وار ہیں احباب
ہمارا حال وطن میں ہوا سفر کا سا
خبر نہیں کہ اسے کیا ہوا پر اس در پر
نشان پا نظر آتا ہے نامہ بر کا سا6؎
دل ایسے شوخ کو مومنؔ نے دے دیا کہ وہ ہے
محب حسین کا اور دل رکھے شمر کا سا7؎
٭٭٭٭٭
1؎خَدَنگ: ایک قسم کا چھوٹا تیرا
نالہ سحر تو جگر سے نکل کر الٹا جگر ہی پر پڑتا ہے اور اُس کو مجروح کر دیتا ہے۔ اگر ایسا تیر صحیح نشانہ پر بیٹھے یعنی آسمان پر جاکر پڑے تو اُس کا بھی وہی حال ہو جو میرے جگر کا ہے۔
2؎معشوق اگر ظلم سے نادم ہے تو بھی عاشق کی خانہ خرابی کا احتمال ہے کیوں کہ اُس کے عرق شرم میں عاشق کی چشم تر کی سی کیفیت ہے۔ چشم تر کی خانہ ویراں سازی مشہور ہے۔
3؎وقتِ قتل کو شہادت کی بنا پر وقت مقبولیت قرار دیتا ہے، مگر جوش یاس کی وجہ سے دُعائے وصل نہیں کرتا۔
4؎گل خندہ شررِ نا پائدار ہوتا ہے۔ شرر ذراہنسا اور خاک ہوگیا۔ یہی میرا حال ہے۔
5؎تجاہل عارفانہ:جان بوجھ کر انجان بننا، کسی معلوم بات کو نامعلوم کی طرح بیان کر کے اس کی تمیز میں اپنی حیرانی و عدم واقفیّت کا اظہار کرنا، ارادتاً نا واقفیت ظاہر کرنا(فیروزاللغات)
صنعت تجاہل عارفانہ۔ یہ ایساحَسین فن ہے کہ شاعر سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتا ہے ، آئینے کی حقیقت کو جانتے ہوئے انجان بن کر آئینے کی حقیقت پوچھتا ہے ،زمین، آ سمان، چاند، سورج، ستارے ، ابر، ہوا وغیرہ کو دیکھتےہوئے اس کی حقیقت سے ناآشنا ہو جا تا ہے جیسے یہ شعر ملاحظہ ہو:
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں ::ابر کیا چیز ہے ہَوا کیا ہے
6؎نامہ بر کے درِ یار تک پہنچنے کا تو ثبوت ہے۔ آگے نہیں معلوم کیا گزری۔ شاید مرگیا۔
7ْ؎شمر اصل میں بسکونِ میم ہے۔ یہ حرکت مومن کا تصرف ہے۔
چوتھی غزل
اس غزل میں پندرہ اشعار ہیں، اس کا قافیہ افغاں، پرساں، پشیماں، احساں، حیراں، ارماں، پیکاں، چسپاں، آساں،ویراں، نگہباں، کتّاں، دیواں، پشیماں، قرباں، سخنداں اور ردیف “ہوگا”ہے۔
گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا
حشر میں کون مرے حال کا پرساں ہوگا1؎
ان سے بدخو کا کرم بھی ستمِ جاں ہوگا
میں تو میں غیر بھی دل دے کے پشیماں ہوگا
اور ایسا کوئی کیا بے سر و ساماں ہوگا
کہ مجھے زہر بھی دیجے گا تو احساں ہوگا2؎
محو مجھ سا دمِ نظارۂ جاناں ہوگا
آئینہ آئینہ دیکھے گا تو حیراں ہوگا3؎
خواہشِ مرگ ہو اتنا نہ ستانا، ورنہ
دل میں پھر تیرے سوا اور بھی ارماں ہوگا4؎
ایسی لذت خلشِ دل میں کہاں ہوتی ہے
رہ گیا سینے میں اس کا کوئی پیکاں ہوگا
بوسہ ہائے لبِ شیریں کے مضامیں ہیں نہ کیوں
لفظ سے لفظ میرے شعر کا چسپاں ہوگا
کیا سناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل
تم سے بے رحم پہ مرنے سے تو آساں ہوگا5؎
حیرتِ حسن نے دیوانہ کیا گر اس کو
دیکھنا خانۂ آئینہ بھی ویراں ہوگا6؎
دیدۂ منتظر آتا نہیں شاید تجھ تک
کہ مرے خواب کا بھی کوئی نگہباں ہوگا7؎
ایک ہی جلوہ مہ رو میں ہوا سو ٹکڑے
جامۂ صبر جسے کہتے ہیں کتاں ہوگا8؎
گریہی گرمیِ مضموں شرر ریز رہی
رشتۂ شمع سے شیرازۂ دیواں ہوگا
کیوں کہ امیدِ وفا سے ہو تسلی دل کو
فکر ہے یہ کہ وہ وعدے سے پشیماں ہوگا9؎
گرترے خنجرِ مژگاں نے کیا قتل مجھے
غیر کیا کیا ملک الموت کے قرباں ہوگا10؎
اپنے انداز کی بھی ایک غزل پڑھ مومن
آخر اس بزم میں کوئی تو سخن داں ہوگا
٭٭٭٭٭
1؎خموشی اثر : جس کا اثر خاموشی کا سا ہے۔ یعنی جب میری فغاں خاموشی کا حکم رکھتی ہے تو حشر میں بھی اس کی پرسش کی امید نہیں، مومن نے افغاں اور فغاں کو مذکر باندھا ہے۔
2؎شاعر اپنی بے سرو سامانی سے اکتا کر موت کا متمنّی ہے، مگر اس کے لیے بھی ساز و سامان چاہیے۔ بے سرو سامانی کی انتہا یہ ہے کہ زہر بھی میسّر نہیں۔
3؎دوسرے آئینہ سے رخِ جاناں مراد ہے۔
4؎ارماں: ارمانِ مرگ
5؎تم پر مرنا زیادہ مشکل ہے۔ جب میں نے اس کو جھیل لیا تو اُس کو جھیلنا کیا دشوار ہے۔
6؎خانہ آئینہ کی ویرانی سے اُس کی بے رونقی مراد ہے۔ اس کویعنی معشوق کو آئینہ دیکھتے وقت اگر خود اُسی کی حیرتِ حسن نے دیوانہ کر دیا تو پھر آرایش سے بیزار ہوجائے گا۔
7ْ؎اے دیدہ منتظر تجھ تج خواب نہیں آتا۔ شاید اُس کا بھی کوئی نگہبان ہوگا۔ جو معشوق کی طرح اس کو نہیں آنے دیتا۔
8؎ کتان کا کپڑا جلوہ ماہ سے چاک چاک ہو جاتا ہے۔ میرا جامہ صبر بھی گویا کتان ٹھہرا کہ جلوہ ماہرو کی تاب نہ لاسکا۔
9؎مجھے یہ فکر ہے کہ وہ وعدہ کرکے پچھتائے گا۔ پھر ایسے شخص سے امید وفاسے وعدہ لاحاصل ہے
10؎یعنی رقیب میرے قتل کی خوشی میں ملک الموت کے قربان ہوگا۔ لہذا اگر معشوق کو رقیب کی خاطر عزیز ہے تو چاہیےکہ مجھ (عاشق) کو خنجر مژگاں سے قتل کر دیے۔ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ رقیب اس رشک سے اپنی جان دے دیجیے۔
پانچویں غزل
اس غزل میں دس اشعار ہیں، اس کا قافیہ افغاں، نمکداں، ہجراں، پریشاں، پنہاں، درماں، بیاباں، خنداں، پیماں،گریباں، ایماں اور ردیف “ہوگا”ہے۔
بے سبب کیوں کہ لبِ زخم پہ اُفغاں ہوگا
شورِ محشر سے بھرا اس کا نمک داں ہوگا1؎
آخر امید ہی سے چارہء حرماں ہوگا
مرگ کی آس پہ جینا شبِ ہجراں ہوگا2؎
مجمعِ بسترِ مخمل شبِ غم یاد آیا
طالعِ خفتہ کا کیا خواب پریشاں ہوگا3؎
دل میں شوقِ رخِ روشن نہ چھپے گا ہرگز
ماہ پردے میں کتاں کے کوئی پنہاں ہوگا
درد ہے جاں کے عوض ہر رگ و پے میں ساری
چارہ گر ہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا4؎
شومیِ بخت تو ہے چین لے اے وحشتِ دل
دیکھ زنداں ہی کوئی دن میں بیاباں ہوگا5؎
نسبتِ عیش سے ہوں نزع میں گریاں یعنی
ہے یہ رونا کہ دہن گور کا خنداں ہوگا6؎
بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اسی بدعہد کا پیماں ہوگا7؎
چارہ جو اور بھی اچھا میں کروں گا ٹکڑے
پردہء شوخ جو پیوندِ گریباں ہوگا 8؎
دوستی اس صنم آفتِ ایماں سے کرے
مومن ایسا بھی کوئی دشمنِ ایماں ہوگا
٭٭٭٭٭
1؎قاتل کا نمکدان شور محشر سے بھرا ہوگا اور محشر اور فریاد لازم و ملزوم ہیں۔ اس لیے نمک پاشی سے لبِ زخم کا مائل فریاد ہوناحق بجانب ہوگا۔ گویا فریادِ زخمِ عاشق، کم حوصلگی کا نتیجہ نہیں بلکہ بیداد معشوق قدرۃً محرک فغاں ہے۔ شور اور نمکدان کی رعایت ظاہر۔
2؎ناکامی عشق کا علاج اگر ہوسکتا ہے تو امید ہی سے ۔ خواہ وہ امید مرگ ہی کیوں نہ ہو یعنی امید سے بہر حال سروکار رہتا ہے۔ کچھ نہیں تو موت ہی کی امید سہی۔
3؎شبِ ہجراں میں کامرانی وصل یاد آئی جب بستر مخمل پر دوست کے ساتھ داد عیش دے رہے تھے۔ ایسی حالت میں میں یادِ عیش گذشتہ سے سوئے ہوئے نصیب کا خواب کس قدر پریشان ہوگا یعنی یاد وصل، خفتہ طالعی کی تلخی میں اور اضافہ کرے گی۔ لفظ خواب میں ایہام ہے۔
4؎اگر علاج ہوا تو درد جاتا رہے گا۔ لیکن چوں کہ درد، جان کے عوض تمام جسم میں سرایت کیے ہوئے ہے اس لیے درد کا زائل ہونا اور جان کا جانا مترادف ہوں گے۔
ساری: اثر کرنے والا
5؎وحشت دل زنداں سے گھبرا کر بیاباں نوردی پر ابھارتی ہے۔ جس پر مومن کہتا ہے کہ اگر میری سبز قدمی سلامت ہے تو ایک دن زنداں ہی ویران ہوکر بیابان ہوجائے گا۔
6؎یہاں دہان گور کے کشادہ ہونے کو اس کے خنداں ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ شاعر کی ایذا پسندی کو عیش و خوشی سے اتنی سی مناسبت بھی گوارا نہیں اور محض اسی وجہ سے نزع میں روتا ہے۔
7ْ؎معشوق نے عہد کیا تھا کہ رقیبوں سے بات نہ کرے گا لیکن بات کی جس سے اُدھر اُس کا عہد ٹاٹا، اِدھر عاشق کا دل یعنی اس کا عہداور اس کا دل دونوں بودے نکلے۔
8؎ چارہ جو نے دیوانہ کے چاک گریباں میں معشوق کے پردوہ در کا پیوند لگایاہے کہ شاید اس سے تسکین خاطر ہو یا اس کا ادب کرکے جامہ دری سے باز رہے۔ مگر دیوانہ بدرجہ اولی اس کو چاک کرے گا کیوں کہ وہ ہمیشہ سے معشوق کے پردے کا دشمن ہے۔
تیسری اکائی
اردو کے اہم غزل گو شعرا اور ا ن کی شاعری
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭انتخابِ کلامِ میر کی ابتدائی بیس غزلیں
٭دیوانِ غالب (مطبوعہ غالب انسٹیوٹ)
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭“کلیاتِ شاد” بہار اردو اکادمی، پٹنہ
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ب کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
حسرت موہانی
٭“کلیاتِ حسرت”
٭ردیف الف کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف م کی ابتدائی پانچ غزلیں
٭ردیف ی/ے کی ابتدائی پانچ غزلیں
فانی بدایونی
٭ “کلامِ فانی”، ناشر، مشورہ بک ڈپو، گاندھی نگر، دہلی
٭ابتدائی دس غزلیں
جگر مرادآبادی
٭ “آتشِ گل”
٭ابتدائی دس غزلیں
اصغر گونڈوی
٭“نشاطِ روح”
٭ابتدائی دس غزلیں
یگانہ چنگیزی
٭ “آیاتِ وجدانی”
٭ابتدائی دس غزلیں
فراق گورکھپوری
٭ “گلِ نغمہ”
٭ ابتدائی دس غزلیں
مجروح سلطان پوری
٭“غزل”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
کلیم عاجز
٭“وہ جو شاعری کا سبب ہوا”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
شہر یار
٭ “اسمِ اعظم”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں
عرفان صدیقی
٭“عشق نامہ”
٭ ابتدائی پانچ غزلیں